روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اپنے حالیہ بیان میں یوکرین پر ”ٹیکٹیکل نیوکلئیر ہتھیاروں“ (ٹی این ڈبلیو) کے استعمال کی دھمکی دی ہے، جس کے بعد سوال اٹھ رہا ہے کہ آخر یہ ”ٹیکٹیکل نیوکلئیر ویپن“ کیا بلا ہے اور کیا یہ روایتی جوہری ہتھیاروں سے مختلف ہے؟
بیٹل فیلڈ یا نان اسٹریٹجک جوہری ہتھیار کہلائے جانے والے ٹیکٹیکل نیوکلیئر ویپنز کو میدان جنگ میں زبردست روایتی قوتوں جیسے پیادہ فوج اور جنگی ساز وسامان کی بڑی تشکیل کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔
یہ اسٹریٹجک جوہری ہتھیار جیسے بین البراعظمی بیلسٹک میزائلوں پر لے جانے والے وار ہیڈز سے چھوٹے ہوتے ہیں۔
دھماکہ سے پیدا ہونے والی تباہی، کلوٹن میں ناپا جانا اور کم فاصلے تک میزئل لانچ کرنے والی گاڑیاں عام طور پر ان کی پہچانی جانے والی خصوصیات ہیں۔
ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کی پیداوار میں ایک کلوٹن سے لے کر تقریباً 50 کلوٹن تک فرق ہوتا ہے، جبکہ اسٹریٹجک جوہری ہتھیار کی پیداوار تقریباً 100 کلوٹن سے لے کر ایک میگاٹن تک ہوتی ہے۔
حوالہ کے لیے ہیروشیما پر گرایا گیا ایٹم بم 15 کلوٹن تھا، اس لیے کچھ ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
سب سے بڑا روایتی بم، ”مدر آف آل بومبس“ (MOAB) ہے جس کی پیداوار 0.011 کلوٹن ہے۔
ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کی ترسیل کے نظام میں بھی کم رینج ہوتی ہیں، یہ 310 میل (500 کلومیٹر) سے کم ہوتے ہیں، جبکہ روایتی یا اسٹریٹیجک نیوکلئیر ہتھیار عام طور پر براعظموں کو عبور کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں، جنہیں بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (آئی سی بی ایم) کہا جاتا ہے۔
پاکستان سمیت امریکا، روس، چین، بھارت، اسرائیل اور شمالی کوریا کے پاس کئی قسم کے ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار ہیں۔
روس کے پاس سب سے زیادہ ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار موجود ہیں جن کی تعداد تقریباً دوہزار ہے۔
ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیاروں کو بحری جہازوں، طیاروں اور زمینی افواج کے ذریعے تعینات کیا جا سکتا ہے۔ زیادہ تر کو ہوا سے سطح پر مار کرنے والے میزائلوں، مختصر فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں، گریویٹی بموں، درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے اور ٹیکٹیکل بمباروں، یا نیول اینٹی شپ اور اینٹی سب میرین ٹارپیڈو کے ذریعے ڈیپتھ چارجز پر تعینات کیا جاتا ہے۔
جوہری دھماکے کیمیائی دھماکوں کے مقابلے میں 10 سے 100 ملین زیادہ طاقتور ہوتے ہیں، اور مہلک تابکاری کے اثرات چھوڑتے ہیں جو ہوا، مٹی، پانی اور خوراک کی فراہمی کو آلودہ کر دیتے ہیں، جیسا کہ 1986 میں تباہ کن چرنوبل نیوکلیئر ری ایکٹر کے پگھلاؤ سے ہوا تھا۔
پاکستان کے ٹیکٹیکل نیوکلئیر ہتھیار
پاکستان کے پاس کئی اقسام کے نیوکلئیر ہتھیار ہیں جن میں روایتی اور ٹیکٹیکل دونوں شامل ہیں۔
بھارت نے پاکستان کے خلاف ”کولڈ اسٹارٹ اسٹریٹیجی“ کا کئی مواقع پر برملا اظہار کیا ہے۔
کولڈ اسٹارٹ کئی ڈویژن سائز کے مربوط جنگی گروپوں کو ہر وقت اسٹینڈ بائی الرٹ پر رہنے کا تصور ہے، تاکہ ضرورت پڑنے پر وہ کئی سمتوں سے ایک ساتھ پاکستان میں گہرائی تک گھس سکیں اور پاکستان کی سرزمین کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر سکیں، جسے بعد میں سودے بازی کے لیے استعمال کیا جا سکے ہے۔
جس کے جواب میں پاکستان نے اپنا اسٹریٹجک ڈیٹرنس سے تبدیل کر دیا جسے ”فل اسپیکٹرم ڈیٹرنس“ کہا جاتا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ٹی این ڈبلیوز تنازعات کو ختم کرنے یا کم از کم پیش قدمی کو کم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
تاہم، صرف اس وجہ سے کہ ٹی این ڈبلیوز یورپی ماحول میں سرد جنگ کے دوران ایک مؤثر رکاوٹ تھے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ جنوبی ایشیا میں بھی یہ کارآمد ہوں گے۔
ماہرین کے مطابق ایک چھوٹا سا ”کِل رینج“ ہتھیار بھی ایک ایسے خطے میں شہری ہلاکتوں کی بڑی تعداد کا باعث بن سکتا ہے جہاں آبادی کی کثافت دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
پاکستان پر ٹیکٹیکل نیوکلئیر ہتھیاروں کے استعمال کا اثر
اپنی ہی سرزمین پر دشمن قوت کے خلاف ٹی این ڈبلیوز کا استعمال بھی پاکستان کے لیے زبردست اثرات مرتب کرے گا۔
سب سے پہلے تو اس کے نتیجے میں پاکستان کی اپنی آبادی کا بڑا حصہ ہلاک ہو سکتا ہے، کیونکہ پاکستان کے پاس اپنی آبادی کو منتقل کرنے کے لیے کافی وقت نہیں ہوگا۔
دوسرا، اگر بھارت پاکستان کے اہم شہروں کے خلاف اپنے اسٹریٹجک ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے جواب دینے کا فیصلہ کرتا ہے تو پورا اسٹریٹجک گیم پلان ناکام ہو جائے گا۔
تیسرا، ٹی این ڈبلیوز کے استعمال کے نتیجے میں دشمن قوتوں کی متوقع تباہی یا تو تنازعے کو ختم کرنے یا اسے مزید کم کرنے کے لیے کافی نہیں ہو سکتی۔
ایک حالیہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ پیش قدمی کرنے والی بھارت افواج پر ٹی این ڈبلیو حملہ زیادہ سے زیادہ 20 سے 30 ٹینک اور اتنی ہی تعداد میں بکتر بند پرسنل کیریئرز کو تباہ کر سکتا ہے۔ ایسی صورت میں بھارت پاکستان میں پیش قدمی جاری رکھے گا اور/یا اگر بڑا جواب نہیں ملتا تو میچنگ دے گا۔
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری) کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے پاس 165 نیوکلئیر ہتھیاروں کا ذخیرہ موجود ہے۔
سابق وزیر داخلہ شیخ رشید 2019 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پیدا ہونے والی ٹینشن کے دوران ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کے پاس ”پاؤ والے بھی ہیں اور ڈیڑھ پاؤ والے بھی“۔ یقیناً ان کا اشارہ پاکستان کے پاس موجود ٹیکٹیکل نیوکلئیر ہتھیاروں کی جانب تھا۔
عام طور پر میزائلوں کو نیوکلئیر ہتھیار سمجھا جاتا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ میزائل صرف نیوکلئیر ہتھیاروں کا ان کے ٹارگٹ تک پہنچانے زریعہ ہوتے ہیں، اصل جوہری ہتھیار وہ پے لوڈ ہوتا ہے جسے میزائل لے کر منزل تک جاتے ہیں، انہیں ”وارہیڈز“ یا ”نیوکلئیر وارہیڈز“ کہا جاتا ہے۔
ٹیکٹیکل میزائلوں کی بات کریں تو پاکستان کے پاس 70 کلومیٹر کی رینج والا حتف ون، 100 کلومیٹر رینج کا حامل حتف ون اے، اس کا اپڈیٹڈ ورژن حتف ون بی 100 کلومیٹر رینج کے ساتھ، 70 سے 100 کلومیٹر سے زائد رینج والا نصر اور 290 سے 320 کلویمٹر کی رینج تک وار ہیڈ لےب جانے کی صلاحیت رکھنے والا غزنوی شامل ہیں۔