کراچی والے عمومی طور پر چائے پینے کے شوقین ہوتے ہیں۔ شہر کے مختلف مقامات پر ملنے والی دودھ پتی کڑک چائے شہریوں کی توجہ کا مرکز ہوتی ہے۔ چائے کے ہوٹلوں پر یوں تو گپ شپ کرنے، دن بھر کام کاج کے بعد تھکان اور ذہنی سکون حاصل کرنے کے غرض سے بیٹھک لگائی جاتی ہے اور چائے سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔
تاہم کراچی والوں کی پسندیدہ کوئٹہ ہوٹل کی چائے شہریوں کے لئے مضر صحت ثابت ہوسکتی ہے۔
جناح یونیورسٹی آف ویمن اور ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے اشتراک سے ہونے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر پی جانے والی چائے میں پلاسٹک کے ذرات موجود ہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ٹیکنیکل ڈائریکٹر معظم علی خان کے مطابق جناح یونیورسٹی فار ویمن کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر استعمال کی جانے والی غذاؤں پر تحقیق کررہے ہیں، تاہم چونکہ دودھ پتی چائے معروف ہے اور شہریوں کی پسندیدہ بھی ہے تو اس سے تحقیق کا آغاز کیا گیا تھا، جس میں حیرت زدہ کرنے والے حقائق سامنے آئے ہیں۔
محمد معظم خان کے ایک کپ میں 100 سے 1200 مائیکرو پلاسٹک موجود ہوتے ہیں۔ تاہم پلاسٹک کے حوالے سے ابھی پاکستان میں تحقیق جاری ہیں، تو یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ ذرات انسان کے لئے کتنے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
مگر چونکہ یہ ذرات ماحول میں موجود پلاسٹک کے زریعے لوگوں کی غذاؤں میں شامل ہورہے ہیں اور شہر کی آب و ہوا اور ماحول میں کیمیکلز، جراثیم ، اور مضر صحت گیسز موجود ہیں جو پلاسٹک کی سطح پر بیٹھ جاتی ہیں۔ پھر ذرات کی شکل میں انسان کے جسم میں داخل ہورہی ہیں جس سے صحت پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
محمد معظم خان کے مطابق چائے میں پلاسٹک کے ذرات شامل ہونے کے کئی عوامل ہوسکتے ہیں۔ چونکہ چائے میں فائبر پلاسٹک پایا گیا ہے، تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ جو چائے پتی کوئٹہ ہوٹلوں پر استعمال ہورہی ہے اور اسے جس طرح چھانا جارہا ہے وہ غیر معیاری ہو۔
جناح یونیورسٹی فار ویمن سے تعلق رکھنے والی پروفیسر ڈاکٹر رعنا ہادی کا کہنا ہے اس تحقیق کا آغاز ان کی ٹیم نے کراچی کے ساحل سے کیا تھا۔ جہاں ساحل کی مٹی کو بطور نمونہ لیا گیا تھا جس میں پلاسٹک کے ذرات پائے گئے تھے۔ تاہم اس کے بعد اس تحقیق کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ان کی ٹیم نے روز مرہ استعمال کی غذاؤں اور کراچی والوں کی پسندیدہ دودھ پتی چائے پر تحقیق کا آغاز کیا۔
ڈاکٹر رعنا ہادی کے مطابق چائے کے مختلف ہوٹلوں اور ڈھابوں سے دودھ پتی چائے کے نمونے لئے گئے جس میں پلاسٹک کے ذرات پائے گئے جو روزمرہ کی بنیاد پر تواتر کے ساتھ انسانی جسم میں جارہے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر رعنا کا کہنا تھا کہ مائیکرو پلاسٹک انسانی آنکھ سے نظر نہیں آتا اور جلد ختم بھی نہیں ہوتا جس کے باعث ماحول سے ذرات کا غذاؤں میں شامل ہوجانا اور پلاسٹک پر موجود کیمیکلز ، جراثیم انسانی صحت کے لئے ناصرف خطرناک ہوسکتا ہے اس کے ساتھ کینسر جیسے موذی مرض کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
دودھ پتی چائے پر تحقیق کرنے والی ٹیم نے کہا کہ پرانے زمانے میں پلاسٹک کا استعمال کم کیا جاتا تھا جس کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی اور انسانی صحت بھی محفوظ تھی تاہم اس طرح مختلف غذائوں کے زریعے پلاسٹک کا جسم میں داخل ہوجانا مناسب نہیں ہے، اسی لئے ہمیں فوری طور پر پلاسٹک کے استعمال میں کمی لانی ہوگی تاکہ انسانی صحت اور ماحول دونوں کو محفوظ رکھا جاسکے۔