نیوکلئیر یا جوہری بم بنی نوع انسان کی جانب سے اب تک بنائے گئے سب سے تباہ کن ہتھیار ہیں، اور آپ کو لگتا ہوگا کہ ان کی حفاظت دیکھ بھال انتہائی محتاط انداز میں کی جاتی ہوگی۔
لیکن یہاں آپ غلط ہیں، کیونکہ گزشتہ برسوں میں تھرمو نیوکلیئر ہتھیار کی خوفناک حد تک بڑی تعداد ضائع ہو چکی ہے یا لاپتہ ہے اور ان میں سے کم از کم ایک آرکٹک کی برف میں کہیں دفن ہے۔
مسلسل گرم ہوتے عالمی درجہ حرارت کا مطلب ہے کہ کچھ وقت کی بات ہے اور یہ جوہری ہتھیاروں کا برف میں مدفون یہ پے لوڈ دنیا کے سامنے ہوگا۔
امریکی فوجی زبان میں ان گمشدہ ہتھیاروں کو ”بروکن ایرو“ (ٹوٹے تیر) کے واقعات کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔
اب تک کا شاید سب سے پراسرار ”بروکن ایرو“ حادثہ ”انک اسپاٹ 59“ کال سائن والے امریکی فضائیہ کے ”بی 47 اسٹریٹو جیٹ“ کی گمشدگی ہے۔
انک اسپاٹ 59 ان چار B-47E میں سے ایک تھا جو 10 مارچ 1956 کو فلوریڈا میں میک ڈِل ایئر فورس بیس سے مراکش کی طرف روانہ کئے گئے تھے۔
الجزائر میں ”پورٹ سے“ کے جنوب مشرق میں کہیں، چار طیارے گھنے بادل میں داخل تو ہوئے لیکن ان میں سے صرف تین باہر نکلے۔ انک اسپاٹ 59 اس کے بعد سے کبھی نہیں دیکھا گیا۔
قریبی مشق پر موجود برٹش رائل نیوی کے بحری جہاز جائے وقوعہ پر پہنچے لیکن مکمل تلاش کے باوجود کسی بھی ملبے کا کوئی نشان نہیں ملا اور نہ ہی طیارے کے عملے میں موجود تین افراد میں سے کوئی ملا۔
انک اسپاٹ 59 ویپن گریڈ (ہتھیار میں تبدیل ہونے کی صلاحیت) یورینیم کے دو ٹرانسپورٹ کیس لے کر جا رہا تھا۔
دسمبر 1965 میں جوہری بم لے جانے والا A-4E اسکائی ہاک یو ایس ایس ٹیکونڈیروگا سے ’رول آف‘ ہوکر سمندر برد ہوا اور پھر کبھی نہیں دیکھا گیا۔
اسی سال کے جولائی میں، ایک B-47 بمبار طیارہ معمول کے تربیتی مشن کے دوران سفوک میں گیا لیکن ہیتھ ائیرفورس بیس کے قریب گر کر تباہ ہو گیا۔
یہ طیارہ ایک عمارت سے ٹکرایا اور اس میں تین جزوی طور پر تیار ”مارک 6“ ایٹمی بم تھے، جن کی ممکنہ دھماکہ خیز پیداواری صلاحیت 160 کلوٹن تک تھی۔
حادثے میں جوہری دھماکے کے امکانات زیادہ تو نہیں تھے کیونکہ بموں کے دھماکہ خیز مواد اور یورینیم 238 کور جیٹ ایندھن پڑ چکا تھا، جو ایک ممکنہ ”ڈرٹی بم“ میں تبدیل ہوچکا تھا اور مشرقی انگلینڈ کو تباہ کر سکتا تھا۔
ایک سرکاری امریکی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک ”معجزہ“ تھا کہ ”کھلے ہوئے ڈیٹونیٹرز“ کے باوجود ایک بم بھی نہیں پھٹا، اور آگ بجھانے والے افراد نے اطلاع دی کہ اس وقت ”صرف گھبراہٹ کا عالم نہیں تھاں بلکہ باقاعدہ ہیتھ میں بھگدڑ مچ گئی تھی۔“
حادثے کے پانچ سال بعد 1961 میں دورانِ پرواز امریکی فضائیہ کے B-52G بمبار طیارے میں اچانک پیدا ہونے والے تکنیکی مسائل نے عملے کو باہر کودنے پر مجبور کیا، اور بمبار 1500 فٹ کی بلندی سے گولڈسبورو شمالی کیرولائنا کے قریب کھیتوں پر آگرا۔
ٹوٹتے طیارے سے دو 3.8 میگاٹن کے ”مارک 39“ ایٹمی بم زمین پر گرے۔ ان میں سے ایک خودکار طریقے سے جزوی طور پر چالو ہوگیا جبکہ ایک سرکاری اکاؤنٹ نے دعویٰ کیا کہ بم غیر مسلح تھا اور اس کے پھٹنے کا کوئی خطرہ نہیں تھا، 52 سال بعد معلومات کی آزادی کی درخواست نے انکشاف کیا کہ بم کے چار آرمنگ سوئچز میں سے صرف ایک ٹرگر کرنے میں ناکام رہا تھا اور یہ دھماکے کے بہت قریب تھا۔
ہتھیاروں کی بازیابی میں شامل بم ڈسپوزل کے ماہر لیفٹیننٹ جیک ریویل نے کہا کہ ہم 1945 میں ہیروشیما کو تباہ کرنے والے بموں سے 250 گنا زیادہ طاقتور جوہری دھماکے کے بہت قریب تھے۔
دوسرا جوہری ہتھیار تقریباً 700 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین پر ٹکرا کر دو ٹکڑے ہو گیا۔ اس کا ایک ٹکڑا کھیت میں 20 فٹ تک دھنس گیا تھا، لیکن دوسرا ٹکڑا کبھی نہیں ملا۔
مزید تلاش کے بجائے امریکی فضائیہ نے آس پاس کی زمین خرید لی اور اس علاقے کو مستقل طور پر ”بند“ قرار دے دیا۔
گولڈ سبورو کے حادثے کے بعد اسی سال لیکن ہیتھ میں ایک اور آفت کا منظر تھا۔ مارک 28 جوہری ہتھیاروں سے لیس امریکی فضائیہ کے F-100 سپر سیبر کے پائلٹ نے حادثاتی طور پر اپنے طیارے کے ڈراپ ٹینک کو گرا دیا، طیارہ رن وے پر تھا اور جوہری ہتھیار جیٹ فیول سے لتھڑا جل رہا تھا۔
ایک حفاظتی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ درجہ حرارت جوہری دھماکے کا سبب بن سکتا ہے۔ حادثے کا مکمل خطرہ 2003 میں سامنے آیا تھا، جب وزارت دفاع کو 1960 سے 1991 کے درمیان جوہری ہتھیاروں سے متعلق 20 برطانوی حادثات کی فہرست شائع کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔
1968 کے ایٹمی حادثے کے حقیقی اثرات کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ہے۔ چار 14 کلوٹن کے بی 28 بموں سے لدے ایک امریکی B-52 بمبار میں عملے میں سے ایک کی جانب سے ہیٹنگ وینٹ پر کشن چھوڑنے آگ بھڑک اٹھی۔ جب جلتا ہوا بمبار آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر تھا، عملے نے آگ کامیابی سے بجھا لی لیکن اس کوشش میں ایک جان سے گیا۔
ہوائی جہاز، کال سائن ”ہوبو 28“ گرین لینڈ میں تھولے ایئر فورس بیس کے قریب نارتھ اسٹار بے میں گرا۔
حادثے کی وجہ سے B-52 کے ایندھن ٹینک پھٹ گئے، جس کے نتیجے میں بموں کے انتہائی دھماکہ خیز اجزاء ڈیٹونیٹ ہوگئے۔ پلوٹونیم، یورینیم اور ہوائی جہاز کے پرزے وسیع علاقے میں بکھرے ہوئے تھے۔ جہاز کے ایک بڑے حصے نے سخت جمی ہوئی برف کو پگھلا دیا، جس کے دوبارہ جمنے سے پہلے جہاز 600 فٹ تک ڈوب چکا تھا۔
اس حادثے نے ایک بڑے اسکینڈل کو جنم دیا، کیونکہ دانش حکومت نے تکنیکی طور پر اس وقت اپنی سرزمین پر جوہری ہتھیاروں کی اجازت نہیں دی تھی۔
پینٹاگون کے ایک بیان میں حادثے میں چاروں B28FIs کے تباہ ہونے کی تصدیق کی گئی تھی، لیکن سن 2000 میں ڈینمارک کی پریس میں آنے والی رپورٹس نے انکشاف کیا تھا کہ ان میں سے ایک کا تھرمونیوکلیئر اسٹیج درحقیقت کبھی برآمد نہیں ہوا تھا۔
برسوں بعد اعلان کردہ ایک سرکاری رپورٹ نے انکشاف کیا کہ جلنے والا وارہیڈ برف کے پگھلنے سے مزید گہرائی میں چلا گیا تھا۔
یو ایس ایس اسکارپین ایک ایٹمی طاقت سے چلنے والی حملہ آور آبدوز ہے، جسے 5 جون 1968 کو گمشدہ قرار دیا گیا تھا۔
یہ نقصان امریکی بحریہ کے لیے خاص طور پر پریشان کن تھا کیونکہ یہ آبدوز لاپتہ ہونے سے عین قبل ایک روسی ریسرچ گروپ کا پیچھا کر رہی تھی۔
اس کے پاس دو مارک 45 اینٹی سب میرین ٹورپیڈو (ASTOR) تھے۔ ملبہ اکتوبر 1968 تک نہیں مل سکا۔ یو ایس ایس اسکارپین اب بھی 3000 میٹر پانی کے نیچے بحر اوقیانوس کی تہہ پر موجود ہے اور ڈوبنے کی وجہ نامعلوم ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ٹورپیڈو روم میں دو جوہری ٹورپیڈوز کی پوزیشن میں برقرار ہے، لیکن بحریہ یقینی طور پر نہیں بتا سکتی۔
ٹورپیڈو کی بازیابی انتہائی مشکل ہوگی، اس لیے بحریہ انہیں نکالنے کے بجائے علاقے میں تابکاری کی سطح کی نگرانی کرتی ہے۔ ابھی تک ٹورپیڈو یا ری ایکٹر سے رساؤ کے کوئی آثار نہیں ملے ہیں۔
حالانکہ سمندری پانی اور سمندری حیات میں پلوٹونیم کے ارتکاز کو ”نسبتاً کم“ اور ”انسان کے لیے ایک غیر معمولی خطرہ“ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ لیکن جس رفتار سے قطبین کی برف پگھل رہی ہے، لگتا ہے یہ سب کچھ بہت جلد بدلنے والا ہے۔