ایکسچینچ کمپنی ایسوسی ایشن پاکستان (ای کیپ) کے جنرل سیکرٹری کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار کی وطن واپسی ممکنہ طور پر تاجر برادری کے لئے امید کی کرن ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی وطن واپسی کی خبر نے ملکی معیشت میں اچانک بھونچال پیدا کردیا، جیسے ہی خبر آئی کہ اسحاق ڈار پاکستان واپس آکر وزارت خزانہ کا قملدان سنبھالنے والے ہیں اسٹاک مارکیٹ 550 پوائنٹ تک اوپر چلی گئی، اوپن مارکیٹ اور انٹربینک میں ڈالر نیچے آگیا۔
ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ اسٹاک اور کرنسی مارکیٹ کے لئے اسحاق ڈار کی واپسی کی خبر ”ڈوبتے کو تنکے کا سہارا“ کے مترادف ہے لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کہیں منافع کمانے والے آج ڈالر کو نیچے لاکر کل دوبارہ اوپر نہ لے جائیں۔
آج نیوز کے پروگرام ’پاکستان اکنامی واچ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے تاجر ظفر پراچہ کا کہنا تھا کہ روپے کی قدر اتنی گراوٹ کی شکار نہیں ہے، پاکستان میں ڈالر کا بھاؤ 237 کے بجائے 200 روپے پر ہونا چاہئے۔
ظفر پراچہ نے کہا کہ طویل المدتی لحاظ سے ڈالر کی قیمت 160 سے 170 کے درمیان ہونی چاہئے مگر وفاقی حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ کچھ اہداف مقرر کیے ہیں تو وہ الگ بات ہے۔
ای کیپ کے جنرل سیکرٹری کا مزید کہنا تھا کہ کچھ قیاس آرائیاں گردش کر رہی تھیں جیسے مقامی بینکوں نے کم و بیش 15 روپے کے فرق سے کام کیا، تاجروں کو سیلاب کا مزید ایک بہانہ ملا کہ ملکی معیشت کو تقریباً 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے، اس وقت ہمیں کمانے کے بجائے اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا چاہئے تھا۔
ایک سوال کے جواب میں ظفر پراچہ کا کہنا تھا کہ جب اسحاق ڈار وزارت خزانہ چھوڑ کر گئے تھے اور آج کے وقت میں بہت فرق ہے کیونکہ اب آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق وہ اوپن مارکیٹ سے ڈالر خرید سکتے ہیں نہ ڈالر کا بھاؤ مقرر کر سکتے ہیں۔
ظفر نے کہا کہ اس سے قبل اسٹیٹ بینک سیاسی طور متاثر تھا اسی لئے آئی ایم ایف سمیت دیگر مالیاتی اداروں نے حکومت پر شرط عائد کرکے اسٹیٹ بینک کو وزارت خزانہ کے کنٹرول سے آزاد کرایا ہے تاکہ حکومت اور سینٹرل بینک دونوں بغیر کسی مداخلت کے اپنے کام انجام دے سکیں۔
انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کو طویل المیعاد طور پر وزارت خزانہ سے آزاد چھوڑنے سے قبل ہمیں اپنی معیشت کا سائز دیکھنا بھی ضروری ہے۔
جنرل سیکرٹری ای کیپ کا کہنا تھا کہ ایکسچینج کمپنیز ڈالر کے ریٹ میں انٹر بینک کی پیروی کرتی ہیں جب کہ اوپن مارکیٹ کا ریٹ میں انٹر بینک سے نیچے ہونا تاجروں سمیت ملک کے مفاد میں بھی ہے۔
ظفر پراچہ نے کہا کہ پچھلے چند ماہ میں ڈالر کی اسمگلنگ، منی لانڈرنگ، حوالہ عروج پر پہنچ چکی ہے، سرمایہ ملک سے باہر جارہا ہے، ایکسچینج کمپنیوں پر ہم نے اتنی پابندیاں لگا دی ہیں کہ لوگوں کا رجحان اب گرے مارکیٹ کی جانب ہوتا جارہا ہے۔