ایرانی اساتذہ، کھلاڑیوں اورسرکاری ملازمین کی بڑی تعداد نے پولیس کی زیرِحراست 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت کے کیخلاف احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔
ایران میں اخلاقی اقدارکے امورکی نگرانی کرنے والی پولیس نے ایک ہفتہ قبل مہساامینی کو حجاب نہ پہننے پرحراست میں لیا تھا، جہاں وہ چل بسی۔
تاحال یہ معمہ حل نہیں ہوسکا کہ ہلاکت پولیس تشدد سے ہوئی یا موت طبعی تھی۔
مزید پڑھیں: ایرانی خاتون کو سرمکمل نہ ڈھانپنے کے جُرم میں حراست میں لیا گیا
احتجاجاً استعفیٰ دینے والوں میں شیراز یونیورسٹی آف آرٹس کی پروفیسر للی گیلیداران بھی ہیں، جنہوں نے شہرمیں طلباء کے حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت میں عملی اقدام اٹھایا۔
پروفیسرللی گیلیداران نے اپنےخط میں لکھا ہے کہ ایران میں جو کچھ ہورہا ہے وہ اس پرانتہائی غمزدہ ہیں، انہوں نے کہا کہ وہ طلباء کے جائز مطالبات کے ساتھ کھڑی ہیں۔
پروفیسرللی کا کہنا تھا کہ میں کھلےعام اعلان کرتی ہوں کہ میں اپنی پروفیسری کی ٹوٹی ہوئی بنیاد کو چھوڑ رہی ہوں جو نوجوانوں کے خون سے رنگین ہے۔
مزید پڑھیں: ایرانی صدر امریکی خاتون اینکرکوبھی حجاب میں دیکھنے پر بضد
ایرانی میڈیا کے مطابق زنجان یونیورسٹی آف بیسک سائنسز کے فزکس کے پروفیسرانسیہ عرفانی نے بھی استعفیٰ دے دیا، انہوں نے ٹوئٹر پرلکھا کہ ”سڑکیں خون میں ڈوبی ہوئی ہیں اور ہمارے پروفیسر خاموش ہیں، وہ ذلیل ہیں اوروہ ذلت قبول کررہے ہیں“۔
متعدد کھلاڑیوں نے بھی ایران کی قومی کھیلوں کی ٹیموں سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے، جن میں تائیکوانڈو پریکٹیشنر مہسا صادقی نے اپنے انسٹاگرام ایرانی خواتین کی جرت و بہادری کو سراہتے ہوئے کہا کہ ”میں قومی ٹیم کو الوداع کہہ رہی ہوں“۔
مزید پڑھیں: ایرانی صدر نے ملک ہونیوالے احتجاج کو فساد قرار دے دیا
دوسری جانب فینسرمجتبیٰ عابدین نے لکھا کہ میں نے جب بھی قومی ٹیم کے لیے کھیلتا ہوں، تو دل سے کھیلتا ہوں لیکن میری سرزمین کے لوگوں کی بے عزتی ہو رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں ایرانی عوام کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں، مجھے خواتین اور اپنے ملک کے احترام میں ایرانی قومی ٹیم کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہنا چاہیے۔
اس کے علاوہ ایران کی قومی ہینڈ بال ٹیم کے کپتان اور اسٹار سجاد ایستیکی نے بھی اپنا عہدہ چھوڑ دیا۔
سرکاری ریڈیو کی پریزینٹر مرضیہ سدرائی نے بھی اپنی ملازمت چھوڑدی، انہوں نے لکھا، ’’معمول کے مطابق مجھے ایک پروگرام میں حاضر ہونا چاہیے تھا لیکن موجودہ حالات اور عوامی احساس کے پیش نظر میں ایسا کرنے کا ارادہ نہیں کر پائی۔‘‘