مائنس ون کی صورت میں اپنی حکمت عملی بتانے والے عمران خان نے اس میچ میں مقابل کو ”ٹیکٹیکل ناک آؤٹ“ کا متلاشی قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ میچ کھیلنے والوں کوعلم ہے وہ جیت نہیں سکتے۔ اب وہ کوئی ٹیکٹیکل ناک آؤٹ دیکھ رہے ہیں کہ کسی طرح عمران خان میچ سے باہر ہوجائے تو میچ کھیلیں۔
آج نیوز کے پروگرام ”آج رانا مبشر کے ساتھ“ میں میزبان رانا مبشر اور بزنس ریکارڈر کے ہیڈ آف ریسرچ علی خضر کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اسمبلی میں جانے کا مطلب ہے ہم نے غیر ملکی سازش کے ذریعے اپنی حکومت کا گرائے جانا تسلیم کرلیا، جس دن ہم اسمبلی میں واپس گئے اس کا مطلب ہوگا کہ ہم نے کرائم منسٹر اور بیرونی سازش کے تحت آنے والے سارے ”سیٹ اپ“ کو قبول کرلیا ہے، اس لیے واپسی کا کوئی سوال ہی نہیں بنتا۔
اسمبلی میں واپس نہ جانے کو اپوزیشن کے لیے اوپن فیلڈ سے متعلق سوال پر سابق وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے پھر بھی بل پاس کروا لینے تھے کیونکہ ان کے پاس اکثریت ہوتی۔
’ایسا صرف بنانا ری پبلک میں ہوتا ہے‘
ارکان اسمبلی کی خریدوفروخت اور کرپشن کیسز کی معافی کو تنقید کا نشانہ بنانے والے عمران خان نے کہا کہ یہ جو بھی کر رہے ہیں کیا عوام انہیں تسلیم کررہی ہے، کیا وہ سمجھتی ہے کہ اربوں روپے خرچ کرکے لوٹوں کے ذریعے منتخب حکومت گرائی جائے، پھر آپ آکر اسمبلی میں بیٹھیں اور اربوں روپے کے کیسز معاف کرانا شروع کردیں، ایسا صرف بنانا ری پبلک میں ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لندن کے سب سے مہنگے علاقے میں پراپرٹی رکھنے والے یہ نہیں بتاسکتے کہ پیسہ کدھر سے آیا۔ حسین نواز نے تسلیم کیا کہ مریم نواز بینیفشل آنر ہیں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ انہوں نے نیب قوانین تبدیل کیے جس کے تحت باری باری اپنی چوری معاف کروا رہے ہیں۔ سب سے بڑی چوری شہباز شریف کی ہے جن کے خلاف ملازمین کے نام سے کی گئی کرپشن پر 16 ارب بنانے کا الزام تھا۔ جب سے یہ آئے ہیں، چار گواہ اور ایک تفتیش کار ڈاکٹر رضوان سب ہارٹ اٹیک سے چل بسے۔ نیب اور ایف آئی اے میں انہوں نے اپنے لوگ بٹھا دیے ہیں۔
’آئے تو کم ازکم مہنگائی تو ٹھیک کرتے‘
آئی ایم ایف ڈیل اور اس حوالےسے پی ٹی آئی رہنماؤں کی آڈیو لیک ہونے سے متعلق سوال پرعمران خان نے کورونا دور میں پاکستان کے معاشی استحکام کی بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ملک کی کوئی فکر نہیں تھی، ہماری حکومت سنبھالنے پرسب سے پہلے ہمیں مہنگائی کے حوالے سے نشانہ بنایا گیا، ہم کہتے رہے کہ یہ عالمی بحران کی وجہ سے ہے، دنیا بھر میں قیمتیں اوپر گئی ہیں، جب یہ آئے تو کم ازکم مہنگائی تو ٹھیک کرتے کیونکہ ان کے پاس بڑا تجربہ بڑا تھا۔ چھ فیصد سے اکانومی زیرو پر آگئی، صنعتیں اور زراعت بھی نیچے چلی گئیں جس سے بیروزگاری ہورہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا انہیں ملک کی کوئی فکرنہیں تھی۔
’بلاوجہ ”سونگ اینڈ ڈانس“ بنا دیا گیا‘
شوکت ترین کے ساتھ خیبرپختونخوا اور پنجاب کے وزرائے خزانہ کی آڈیو لیک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ تیمور جھگڑا یہ کہہ رہے تھے کے وفاق سے پیسے نہیں ملے جبکہ ہمیں سرپلس ظاہر کرنے کا کہا جارہا ہے ، ہمارے پاس تو قبائلی علاقوں میں تنخواہ دینے کے لیے پیسے بھی نہیں جو وفاق نے وعدہ کر رکھا تھا۔
عمران خان کے مطابق تیمور جھگڑا کہہ رہے تھے کہ وفاق نے فاٹا کے لیے فنڈز نہیں دیے، جس کا اتنا بڑا ”سونگ اینڈ ڈانس“ بنادیا گیا۔
’سب تیار ہیں تو ہم اپنی دو حکومتوں سے استعفیٰ دیں گے‘
انہوں نے کہا کہ ملکی استحکام صرف منصفانہ و آزادانہ انتخابات سے ہی ممکن ہے۔ سیاسی استحکام کے بغیر ہماری معیشت مستحکم نہیں ہوسکتی اور انہیں خود نہیں پتہ ہے کہ یہ ایک مہینے کی مار ہیں یا دو مہینے رہ گئے ہیں، تیزی سے تباہی کی جانب جاتی ٹرین کو صرف صاف وشفاف الیکشن بچا سکتے ہیں۔
اپوزیشن، امپورٹڈ حکومت اوراسٹیبلشمنٹ اگرپاکستان کا سوچ رہے ہیں تو فوری الیکشن کروانے چاہئیں، ملک میں سیاسی عدم استحکام اس لیے ہے کیونکہ اس سارے سیٹ اپ پر کسی کو اعتماد ہی نہیں ہے، یہ اس دن ہوگا جس دن الیکشن کروائیں گے۔ اگر سب تیار ہیں تو طریقہ نکل آئے گا، ہم اپنی دو حکومتوں (خیبرپختونخوا اور پنجاب) سے استعفیٰ دیں گے۔
’ملک سے باہر بیٹھے مفرور اور کرپٹ کو آرمی چیف کا تقرر کرنا چاہیئے؟‘
عمران خان نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے اوپر بیٹھے چوروں میں سے 60 فیصد ضمانت پر ہیں، کیا ہم ان کے مقدمات کے خاتمے تک انتظار کریں گے؟ کیا ملک سے باہر بیٹھے مفرور اور کرپٹ آدمی کو آرمی چیف کی تقرری کرنا چاہیئے جس نے ساری زندگی میرٹ پرکوئی کام نہیں کیا اور اہلیت بھی نہیں رکھتا۔
الیکشن پر تمام جماعتوں کے اتفاق رائے کی صورت میں موجودہ آرمی چیف کی مدت ملازمت اورنئے آرمی چیف کی تقرری سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ہماری ترجیح الیکشن ہیں، اور نگراں حکومت آرمی چیف کا تقرر نہیں کرسکتی، یہ تقرری وہ حکومت کرے جو مینڈیٹ لے کر آتی ہے نہ کہ وہ حکومت جو لوٹوں کے ذریعے آتی ہے۔
’اسٹیبلشمنٹ کو کہا تھا عدم استحکام نہ ہونے دیں، یہ نہیں سنبھال سکیں گے‘
ساتویں این ایف سی ایوارڈز اور 18ویں ترمیم کے بعد سے وفاق کے اختیارات پربات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ 2018 میں ن لیگ کی حکومت گئی تو ملکی ذخائر بمشکل 9 بلین ڈالرز اور بیرونی خسارہ 20 ارب ڈالرز کا تھا، ترسیلات زر 19 ارب ڈالرز اور ایکسپورٹ 24 ارب کی تھیں، ہم حکومت سے گئے تو تحریک عدم اعتماد والے دن ملکی ذخائر 16 ارب ڈالرز تھے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 16 ارب تھا، باوجود اس کے کہ ہم نے 3 ارب ڈالرز کورونا ویکسین پر خرچ کیے اور تیل کی قیمتیں بھی بلند ترین سطح پر تھیں۔ پھر بھی ہم کم خسارہ چھوڑ کر گئے اور ہماری ایکسپورٹ ریکارڈ 32 ارب ڈالرز اور ترسیلات زر 19 سے 31 ارب ڈالرز پر تھیں تو ہم آمدنی زیادہ اور قرضہ کم چھوڑ کے گئے تھے۔ یہ کہتے ہیں کہ عذاب چھوڑ کرگئے تھے لیکن انہوں نے معیشت کنٹریکٹ پر اور قیمتیں آسمانوں پر چڑھادی ہیں۔ ہمارا ایکسٹرنل گیپ 30 ارب ڈالر کا ہے، آئی ایم ایف، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور ورلڈ بینک کا پیسہ آجائے تو یہ 7 سے 8 ارب ڈالربنتا ہے، اسی لیے روپیہ گررہا ہے۔
عمران خان نے سوال اٹھایا کہ کیا منصوبہ بندی کے تحت سازش کرنے والوں کو نہیں علم تھا کہ کون سے چیلنجز درپیش ہیں، میں نے اسٹیبلشمنٹ کو کہا تھا عدم استحکام نہ ہونے دیں کیونکہ یہ نہیں سنبھال سکیں گے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ ان دو خاندانوں کے ہوتے ہوئے ملک کا قرضہ بڑھا لیکن ملک نیچے ہی گیا تو انہوں نے آکر صرف اپنی کرپشن ختم کرنی تھی۔
’اُن کے اپنے امپائر تھے اور ہمارے اپنے‘
مائنس ون کی صورت میں اپنی حکمت عملی بتانے والے عمران خان نے کہا کہ میں نے کبھی اتنا بے ایمان الیکشن کمیشن نہیں دیکھا۔
رانا مبشر نے سوال کیا کہ آپ نے خود رکھا ہے، جس پر چیئرمین پی ٹی آئی کا جواب تھا، ”ہم پھنس گئے نا کیونکہ اسٹیبلشمنٹ نے کہا فکرنہ کریں ہم جانتے ہیں اس کو، اُن کے اپنے امپائر تھے اور ہمارے اپنے تو جب ڈیڈ لاک ہوگیا توانہوں نے کہا جی یہ آدمی ہے، مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا۔“
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ایسا بے ایمان آدمی میں نے نہیں دیکھا جس نے الیکشن کمیشن کی جس طرح تذلیل کی اور اسے نیچے گرایا ہے۔
الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کے حوالے سے عمران خان نے کہا کہ اس سے 90 فیصد دھاندلی ختم ہوجاتی ہے، 2015 میں بننے والے جوڈیشل کمیشن کو جتنے دھاندلی کے طریقے بتائے گئے اس میں سے 90 فیصد ای وی ایم لانے سے ختم ہوجاتے، لیکن اس (چئیرمین الیکشن کمیشن) نے آنے نہیں دی۔ یہ حلقوں میں جعلی ووٹس رکھنے والے چوروں کے ساتھ مل گیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ توشہ خانہ اور دیگر کیسز یک طرفہ چل رہے ہیں، ہم کہتے ہیں کہ توشہ خانہ اور فنڈنگ میں باقیوں کو بھی دیکھیں، میں چیلنج کرتا ہوں توشہ خانہ اور فنڈنگ میں جو قانونی چیزیں ہیں وہ ان دونوں کے کیسز میں نہیں ملیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ آصف زرداری نے توشہ خانہ سے تین گاڑیاں نکالیں، نواز شریف نے ایک گاڑی نکالی، ان کے پاس کوئی فنڈنگ کوئی ریکارڈ ہی نہیں۔
عمران خان نے کہا کہ یہ جتنے بھی کوشش کرلیں مائنس ون ہوسکتا ہی نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب میں دھاندلی کے باوجود، جس میں ساری انتظامیہ، اسٹیک ہولڈرز اور وہاں بیٹھے مسٹر ایکس نے مدد کی، اس کے باوجود ہار گئے، اس لیے سیلاب کا بہانہ بنا کر ضمنی انتخابات سے بھی یہ بھاگ گئے۔
’اٹھارویں ترمیم: کوئی سمجھتا ہے کہ وفاق صوبے میں ترقیاتی کام کرسکتا ہے تو یہ ممکن نہیں‘
کراچی سے ساڑھے آٹھ لاکھ ووٹ ملنے کے باوجود کراچی والوں کے بھروسے پر پورا اترنے میں ناکامی کے سوال پر عمران خان کا کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد تمام اختیارات صوبے کے پاس چلے گئے، سندھ حکومت نے ہر جگہ ہمارے لیے رکاوٹین کھڑی کیں، اس کے باوجود ہم نے سندھ کو اپنے صوبوں سے زیادہ پیسہ دیا، لیکن اٹھارویں ترمیم کے بعد اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وفاق صوبے میں ترقیاتی کام کرسکتا ہے تو یہ ممکن نہیں۔
ائیرپورٹ اور بندرگاہوں کی سکیورٹی اور ترقی کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اس کی تفصیلات آپ کو صحیح طور پر سابق وفاقی وزیر برائے بحری امور علی زیدی دے سکتے ہیں۔
’سندھ کی کرپشن نے سارے پاکستان کے ریکارڈ توڑے ہوئے ہیں‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ کراچی کا مسئلہ ہمیشہ رہے گا، کیونکہ جو سندھ کی صوبائی حکومت اندرون سندھ سے ووٹ لے کر آتی ہے اور اس کا مقصد صرف کراچی سے چوری کرکے پیسہ بنانا ہوتا ہے، سندھ کی کرپشن نے سارے پاکستان کے ریکارڈ توڑے ہوئے ہیں، ان سب پر بشمول زرداری اور مراد علی شاہ کیسز بنے ہوئے ہیں۔ نیب ہمارے کنٹرول میں نہیں تھا، ورنہ ان کے تو اوپن اور شٹ کیسز تھے۔
’ملک چلانے کا طریقہ کار تبدیل کرنا ہوگا‘
انہوں نے کہا کہ جس طرح ابھی پاکستان چل رہا ہے وہ طریقہ کار اب تبدیل کرنا پڑے گا، بیوروکریٹس افسران سمیت سب کو تبدیل ہونا پڑے گا۔ عدلیہ کے ساتھ بیٹھ کر کانٹریکٹ انفورسمنٹ پر کام کرنا پڑے گا، کیونکہ باہر سے آنے والے سرمایہ کاروں کو فراڈ کا خطرہ ہوتا ہے۔ ریگیولیٹرز پر 800 اسٹے آرڈرز ہیں، ریگولیٹرز کے فیصلوں پر اسٹے آرڈر ہوسکتا ہے کام کرنے پر کیوں؟ چینی مافیا کے 30 ارب کے جرمانے پر 11 سال اسٹے آرڈر رہا کیونکہ انہوں نے کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان میں اپنے لوگ بٹھائے ہوئے تھے۔ ایف بی آر میں 1.5 ٹریلن روپے کے کیسز پھنسے ہوئے ہیں ان کے فیصلے ہی نہیں ہو پارہے، اس لیے ہمیں اپنی عدلیہ کی مدد کرنی ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں اسٹبلشمنٹ ایک حقیقت ہے، ذمہ داری اور اختیار ایک ساتھ چلتے ہیں، ہمارے پاس ذمہ داری تھی لیکن اختیار نہیں تھا تو احتساب کس طرح کرتے۔
’ہم انڈسٹری کو اٹھا دیتے‘
بلوچستان اور فاٹا میں معدنیات، توانائی کے ذرائع اور ان کے حوالے سے کئے جانے والے اقدامات کے سوال پر سابق وزیراعظم نے کہا کہ معدنیات کا فائدہ صوبوں کو ضرور ہونا چاہئیے، اور اس کیلئے ہمیں کچھ انتہائی قدم اٹھانے پڑیں گے، سول ملٹری اور اسٹبلشمنٹ کے رشتے کو متوازن ہونا پڑے گا، حکومت اور عدلیہ کو بیٹھ کر فیصلے کرنے ہوں گے، سارے اسٹیک ہولڈرز کو مل کر فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ہمیں اس میں سے نکلنا کیسے ہے، آج تک برآمدات پر کسی نے توجہ ہی نہیں دی ، جو بھی ملک آگے بڑھتا ہے وہ برآمدات پر توجہ دیتا ہے۔
عمران خان کے دورِ حکومت میں انڈسٹری کے بجائے رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری پر توجہ کے سوال پر چئیرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ بے شک ہم نے انڈسٹری کو جو تحریک آخر میں دی وہ شروع میں دینی چاہئیے تھی، لیکن کورونا میں جب عالمی معیشت نیچے جارہی تھی تب ہم نے کنسٹرکشن کو ”کوئی سوال نہیں“ پر ترغیب دی، کیونکہ اس شعبے سے تیس مزید انڈسٹریز جڑی ہوئی تھیں، اگر ہمیں مزید وقت مل جاتا ہم انڈسٹری کو اٹھا دیتے۔
اینکر پرسن رانا مبشر نے سوال کیا کہ حکومت جانے سے ڈیڑھ سال پہلے آپ کو کہہ دیا گیا تھا کہ اب آپ اپنے سیاسی فیصلے خود کریں، ایسا کیوں کہا گیا؟
’نیوٹرل اسٹبلشمنٹ کے ساتھ حکومت کا چلنا غلط فہمی‘
جس پر عمران خان نے کہا کہ میرے (اسٹبلشمنٹ سے) بہترین تعلقات تھے، ہمارا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اگر اسٹبلشمنٹ کہے ہم نیوٹرل ہیں اور حکومت سے سپورٹ ختم کردے تو وہ حکومت چل جائے گی، کسی کو اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئیے۔ میں نے ان کو بتایا تھا کہ جس دن آپ نے ایسا فیصلہ کیا کہ حکومت گر جائے گی۔ یہ تو نیوٹرل ہو گئے، لیکن ملک کا کیا بنا۔
’بہتر معیشت کیلئے ملک کی سمت درست کرنی ہوگی‘
اینکر رانا مبشر نے عمران خان سے استفسار کیا کہ معیشیت اور دیگر مسائل کو ٹھیک کرنے کیلئے آپ کو کتنا وقت چاہئیے؟
جس پر ان کا کہنا تھا کہ اس کیلئے پہلے تو ملک کی سمت درست کرنی ہوگی، وہ سب سے مشکل کام ہے، بیوروکریسی کو ماڈرن کرنا ہوگا جس میں اسپیشلسٹ لانا ہوں گے، دنیا ٹیکنالوجی کی طرف جارہی ہے، ہماری آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ میں اسپشلسٹ ہی نہیں تھے، ہندوستان کی آج آئی ٹی میں 130 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ ہے، ہم آئے تو 75 فیصد ہماری ایکسپورٹ بڑھی، لیکن ہماری ایکسپورٹ ہی صرف ایک ارب ڈالر تھی۔ ہمیں دنیا کا مقابلہ کرنا ہے تو خود کو بدلنا ہوگا، آئی ٹی ایکسپورٹ اور سب سے زیادہ ہمیں ٹیکنالوجی پر زور دینا ہوگا، اس کیلئے وقت لگتا ہے۔ ہمیں دوبارہ موقع ملا تو ہم وہ کام پہلے شروع کریں گے جو دور اقتدار کے تیسرے سال شروع کئے۔
’اتحادی حکومت بنانے سے بہتر ہے ہم اپوزیشن میں بیٹھیں‘
اتحادی حکومت بنانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اگر دو تہائی اکثریت نہیں ملی تو اتحادی حکومت بنانے سے بہتر ہے ہم اپوزیشن میں بیٹھیں گے۔
پرانے چہرے
گھما پھرا کر پرانے چہرے ساتھ بٹھانے کے سوال پر عمران خان نے کہا کہ ہماری بیوروکریسی میں چند ایک کے علاوہ کوئی اچھا بیورو کریٹ نہیں تھا، آئی ٹی میں کوئی ایکسپرٹ نہیں تھا، اس کا انتظام ہمیں پہلے سے کرنا پڑے گا کیونکہ جب حکومت میں آجاتے ہیں تو اتنا وقت نہیں ہوتا کہ قابل لوگوں کو جمع کیا جاسکے، اس لیے ہم نے ابھی سے کام شروع کردیا ہے کہ کن چیزوں میں ہمیں کیا تجربہ ہوا اور کن کاموں کیلئے ہمیں باہر سے ایکسپرٹ درکار ہوں گے اور اپنے لوگوں کو آتے ساتھ ہی کہاں بٹھانا ہے۔
’آپ ٹشو پیپر کی طرح استعمال ہونا چاہتے ہیں تو یہ آپ کو استعمال کریں گے‘
امریکا سے تعلقات پر بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ بین الاقوامی تعلقات میں دوستیاں نہیں مفاد ہوتے ہیں، میرا کام ہے میں اپنے ملک کے مفادات کی حفاظت کروں، اپنے ملک کے فائدے کو دوسروں کیلئے قربان نہ کروں- میں سمجھتا ہوں روس سے ہمیں تیل اور گندم لینی چاہئیے، کسی کی جنگ میں شرکت نہیں کرنی چاہئیے، بیسز نہیں دینے چاہئیں، لیکن تعلقات اچھے رکھنے چاہئیں، مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ امریکی اور مغربی ذہنیت کو نہیں سمجھتے، اگر آپ ٹشو پیپر کی طرح استعمال ہونا چاہتے ہیں تو یہ آپ کو استعمال کریں گے، انہوں نے وار آن ٹیرر میں ہمیں استعمال کیا ہے، ہندوستان کو کیوں نہیں کرتے استعمال؟ امپوڑٹد حکومت نے امریکا کے ڈر سے روس سے گندم اور تیل نہیں لیا لیکن ہندوستان لے رہا ہے، کیونکہ ہندوستان اپنے مفادات کی حفاظت کرتا ہے، ان کی آزاد خارجہ پالیسی ہے اور میں پاکستان کیلئے یہی چاہتا ہوں، ہم کسی سے لڑائی نہیں چاہتے لیکن اپنے لوگوں کے مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بین الاقوامی تعلقات میں جب آپ مفادات کی خاطر کسی کی بات نہیں مانتے تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں اور تھوڑے عرصے بعد ٹھیک بھی ہوجاتے ہیں ، لیکن اس کیلئے کسی کے سامنے گٹھنے تو نہیں ٹیکنے چاہئیں، حقیقی آزادی کیلئے ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہوگا۔ یہ مشکل ضرور ہے لیکن اس کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔