حکومت سندھ نے سیلاب متاثرین کیلئے کراچی کے ملیر میں اسکیم 1 سیکٹر 18 میں ٹینٹ سٹی قائم کردیا۔ یہاں اب وہ سیلاب متاثرین منتقل ہوں گے جو پہلے سے عارضی کیمپوں میں سر چھپانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔
بیشتر عارضی کیمپ سرکاری تعلیمی اداروں میں قائم کیے گئے تھے جو اب خالی کرائے جا رہے ہیں۔ ملیر میں بننے والے ٹینٹ سٹی سے کچھ ہی فاصلے پر گلشن حدید عسکری ہائی اسکول میں 700 سیلاب متاثرین پہنچے تھے جن میں سے کئی اب واپس بھی جا چکے ہیں۔ لیکن کئی خاندانوں کے پاس اب کوئی ٹھکانہ نہیں۔
ڈسٹرکٹ کونسل کراچی کے زیر اہتمام ٹینٹ سٹی میں سیلاب متاثرین کی سہولیات کیلئے تمام تر ضروری انتظامات مکمل کیے جا چکے ہیں۔
ڈسٹرکٹ کونسل کے ایک ذمہ دار آصف علی نے آج نیوز ڈیجیٹل کو بتایا کہ انہیں جلد سے جلد ٹینٹ سٹی میں انتظامات مکمل کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں، پیر تک سب انتظامات مکمل کر کے سیلاب متاثرین کو مختلف جگہوں سے لا کر یہاں منتقل کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ انتظامیہ نئے بننے والے ٹینٹ سٹی میں صفائی ستھرائی کا کام کر رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ڈسٹرکٹ کمشنر نے کیمپ ذمہ داران کو ہدایات جاری کی ہیں کہ جلد سے جلد ٹینٹ سٹی کے کام کو مکمل کیا جائے اور تمام سہولتیں ان کو مہیا کی جائیں-
’ہمیں 2000 ہزار ٹینٹس لگانے کا کہا گیا ہے جبکہ ضرورت پڑنے پر مزید دو ہزار ٹینٹس لگائے جائیں گے۔‘
ٹینٹ سٹی میں موجود سہولتوں کے بارے میں بتاتے ہوئے آصف نے کہا کہ یہاں پانی کا انتظام موجود ہے، کھانا بھی دیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ سیلاب متاثرین کیلئے یہاں واش رومز بھی تیار کیے گئے ہیں۔ مطلب سہولیات سب یہاں موجود ہوں گی۔
’راشن، روزگار دیا جائے‘
گلشن حدید کے عسکری اسکول میں قائم عارضی سیلاب کیمپ میں آج نیوز ڈیجیٹل کی ٹیم کے عارضی کیمپ میں داخل ہوتے ہی سیلاب متاثرین نے سہولتوں کے فقدان کے حوالے سے بتانا شروع کر دیا۔
’یہاں ہمیں سہولیات نہیں مل رہیں‘ یہ جملہ اکثر سننے کو ملا۔
کیمپ میں موجود وارہ (ضلع قمبر) کے رہائشی ماجد ابڑو نے بتایا کہ ان کا گاؤں وارہ شہر کے قریب ہے جو اب سیلابی پانی سے بھرا ہوا ہے۔ ’مجبوری میں یہاں خاندان سمیت آیا ہوں۔ ہماری زمینیں اور ہمارا گھر سب سیلاب کی نظر ہوگئے ہیں۔‘
ماجد نے اپنا دکھڑا سناتے ہوئے کہا ’میرے سسرال والوں نے میری بیوی کو مجھ سے چھین لیا اور کہا کہ اب تمہارا گھر نہیں رہا ہماری بیٹی تمہارے ساتھ نہیں رہے گی، میں الیکٹریشن ہوں روزانہ بجلی کا کام کرکے وارہ میں دو سے تین ہزار کما لیتا تھا، پر سیلاب نے سب کچھ برباد کردیا ہے، میں اس وقت اذیت سے گزر رہا ہوں۔‘
ماجد کے ساتھ کھڑی ان کی بہن نے کہا کہ ’میرے والد سرکاری ملازم (ٹیچر) ہیں لیکن انہوں نے قرض لیا ہوا ہے تو ان کی تنخواہ کا آسرا بھی نہیں ہے- میرے شوہر نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے، اب میں دو بچوں کیساتھ اپنے والد کے ساتھ رہتی ہوں لیکن سیلاب کی وجہ سے میری تکالیف میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔‘
خیرپور ناتھن شاہ کے رہائشی صاحب علی نے بتایا کہ انہیں کیمپ میں آئے ہوئے 15 روز ہوچکے ہیں، حکومت یا انتظامیہ سے کسی نے بھی ان سے تعاون نہیں کیا۔ ’سیلانی والے آتے ہیں ہمیں دو وقت کا کھانہ دے کر چلے جاتے ہیں۔‘
کیمپ میں موجود پیپلزپارٹی کے کونسلر مجید نے کہا کہ وہ اس کیمپ میں والنٹری کام کر رہے ہیں۔
کونسلر مجید کا کہنا تھا کہ اس کیمپ میں وارہ ، قمبر شہدادکوٹ، لاڑکانہ، خیرپور ناتھن شاہ سمیت مختلف علاقوں کے سیلاب متاثرین موجود ہیں، یہاں ناشتہ المصطفیٰ ٹرسٹ والے کرواتے ہیں، دوپہر اور رات کا کھانہ سیلانی والے دیتے ہیں، اس کے علاوہ روزانہ کی بنیادی چیزیں جیسے بچوں کا دودھ یا چھوٹی موٹی چیزیں وہ سب ہم دوستوں سے مینیج کراتے ہیں- ہم نے پانی کیلئے الگ لائن دی ہے، جبکہ پینے کیلئے منرل واٹر کا انتظام روزانہ کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے۔
مجید کے مطابق کیمپوں میں مقیم افراد کی اکثریت کا مطالبہ ہے کہ انہیں ٹرانسپورٹ مہیا کی جائے تاکہ وہ اپنے دیہات کو واپس چلے جائیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہاں اس کیمپ میں 700 سے زائد لوگ موجود تھے، جس میں سے کافی لوگ یہاں سے جا چکے ہیں، جو موجود ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ہم ٹینٹ سٹی کے بجائے اپنے گاؤں کو چلے جائیں کیونکہ کافی علاقوں سے پانی اتر چکا ہے۔
’جو صاحب حیثیت لوگ یہاں کچھ چیزیں لے آتے ہیں ہم ڈور ٹو ڈور ان کو پہنچاتے ہیں، ہم نے ہر فیملی کو کارڈ بنا کر دے دیا ہے کہ کس کے ساتھ کتنے افراد ہیں، کھانا اس حساب سے دیتے ہیں، سب کے ساتھ برابری کے حساب سے چلتے ہیں- کسی کی کوئی سفارش نہیں ہوتی۔‘
لیکن صاحب علی کا کہنا کچھ اور تھا۔
’ ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں ایک یا دو مہینوں کا راشن دیا جائے، ہمیں روزگار دیا جائے ، میری یہاں آٹھ افراد پر مشتمل فیملی ہے، صرف روٹی پر تو گزارا نہیں ہوگا نہ ہمارا۔’