سندھ اور پنجاب میں دہشت کی علامت سمجھے جانے والے بدنام زمانہ مبینہ ڈاکو سلطان عرف “سلطو شر” کو ساتھی سمیت پولیس مقابلے میں مارا گیا۔
پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ضلع گھوٹکی کے راؤنتی علاقے کے کچے میں 25 سال سے دہشت کی علامت بنا سلطو شر ایک مقابلے میں ساتھی “عیسو شر” سمیت مارا گیا۔
ڈی آئی جی سکھر جاوید جسکانی اور ایس ایس پی تنویر تونیو نے اوباوڑو میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ سندھ و پنجاب میں دو دہائیوں سے دہشت کی علامت بنے سلطو شر کو ساتھی سمیت پولیس مقابلے میں مار دیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سلطو شر گھوٹکی پولیس کو قتل، اغوا، مقابلوں سمیت 98 سنگین مقدمات میں مطلوب تھا-
آپریشن کے دوران ہلاک ہونے والا سلطو شر، ایس ایچ او حنیف منگریو، حسن کولاچی، غلام نبی مہر سمیت نو پولیس اہلکاروں کے قتل میں بھی مطلوب تھا۔
افسران نے پریس کانفرنس میں کہا کہ پولیس کو ماضی قریب میں اتنی بڑی کامیابی نہیں ملی، جرائم پیشہ عناصر کے خاتمے تک آپریشن جاری رہے گا۔
ڈی آئی جی جاوید جسکانی نے کہا کہ سلطو شر سندھ و پنجاب کی سرحدی علاقوں کے کچے میں اپنی ریاست قائم کر کے رہ رہا تھا، سلطو نے لوگوں کو اغوا کرکے مغویوں کی تذلیل والی ویڈیوز جاری کیں اور کروڑوں روپے بٹورے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سلطو شر کی ہلاکت جرائم پیشہ افراد کیلئے بڑا پیغام ہے کہ وہ جرم کی دنیا چھوڑ کر خود کو قانون کے حوالے کردیں۔
یاد رہے کہ سلطو شر نے کچھ دن قبل ہی رحیم یار خان سے اسلحہ کے زور پر 10 لوگوں کو اغوا کیا تھا۔
دوسری جانب آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے مقابلے میں حصہ لینے والی پولیس ٹیم کیلئے 50 لاکھ روپے انعام اور سرٹیفکٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔
‘سلطو پولیس افسروں کا دوست تھا’
سلطو شر کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے دعوے کے بعد ان کے بھائی سومرو شر نے اپنے ویڈیو بیان میں کہا کہ سلطو پولیس افسروں کا دوست تھا، وہ جرائم کی دنیا کو الوداع کہہ چکا تھا، جس کے بعد وہ پولیس افسروں کے کہنے پر ان کے کام بھی کرتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ میرے بھائی سلطو شر کی ایس ایچ او راؤنتی سے دوستی تھی، اس نے دھوکے سے اپنے پاس بلا کر جعلی مقابلہ ظاہر کر کے مار دیا۔
آج نیوز کی جانب سے رابطہ کرنے پر ڈی آئی جی سکھر جاوید جسکانی نے اپنا موقف دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے جو پریس کانفرنس میں کہا وہی میرا موقف ہے۔