سندھ میں سیلابی پانی اترنے لگا تاہم کئی علاقے اب بھی ڈوبے ہوئے ہیں، پانی نکالنے کے لیے کٹ لگانے پر تنازعہ کھڑا ہوگیا۔
سندھ کے مختلف اضلاع میں سیلاب کی صورتحال برقرار ہے، سانگھڑ کے وارڈ نمبر 10کی کالونی کو ڈوبے کئی دن گزرگئے لیکن وہاں سے پانی نہ نکالا جاسکا۔
بدین کے سیم نالے میں کٹ لگانے کا معاملہ زور پکڑنے لگا، کٹ کو بند نہ کرنے کے خلاف سیلاب متاثرین کا تھرکول شارع پر احتجاج تیسرے روز بھی جاری ہے، جس باعث تصادم کا خطرہ ہے۔
احتجاج کے باعث گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں، کراچی آنے والی گاڑیاں پھنس کر رہ گئیں جبکہ متاثرین نے رات سڑکوں پرگزاری ۔
سیہون میں سیلابی پانی تیزی سے دریائے سندھ میں جانے لگا تاہم اب بھی کئی علاقے زیر آب ہیں جبکہ جیکب آباد میں سیلاب متاثرین خیمہ بستی میں زندگی گزارہے ہیں۔
سندھ میں آنے والے سیلاب نے گہرے نشان چھوڑ دیئے
دوسری جانب سندھ میں آنے والے سیلاب نے گہرے نشان چھوڑ دیئے،گھر ویران اور اسپتالوں میں رش بڑھ گیا،ہزاروں افراد ڈینگی، ملیریا، گیسٹرو اور جلدی امراض میں مبتلا ہوگئے ہیں۔
سندھ میں سیلاب سے گھرے لوگوں کے گرد وبائی امراض کا گھیرا تنگ ہوگیا، سندھ بھر میں ڈینگی سے 4 ہزار سے زائد افراد متاثر ہیں۔
خیرپور میں گزشتہ روز گیسٹرو اور ملیریا میں مبتلا 6 بچے جان کی بازی گئے، جس کے بعد ایک ماہ کے دوران مختلف امراض میں مبتلا ہوکر جاں بحق بچوں کی تعداد ڈھائی سے تجاوز کرگئی۔
سکھر کی تحصیل صالح پٹ میں گیسٹرو اور ملیریا میں مبتلا 4 بچے جاں بحق ہوگئے، ضلع سکھر میں ایک ماہ کے دوران 20 سے زائد بچے جاں بحق اور ہزاروں متاثر ہوئے ہیں۔
ٹھٹھہ میں بھی سیلاب متاثرین وبائی امراض کے عذاب میں مبتلا ہونے لگے، 25 ہزار سے زائد افراد ملیریا، ڈائریا اور جلدی امراض میں مبتلا ہیں جبکہ ڈینگی کے 7 کیسز بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔
سندھ میں حالیہ سیلاب کا پانی تو اترنا شروع ہوگیا ہےلیکن پیچھے بےشمار کہاں اور امراض چھوڑ گیا، کئی علاقوں میں موجود پانی بھی وبائی امراض کا سبب بن رہا ہے، حکومت امدادی کاموں کےساتھ ساتھ پانی کے نکاس کا بھی معقول انتظام کرے۔