بحیرہ عرب میں ایک پُراسرار جزیرہ “سقطری” موجود ہے جو ملک یمن کا حصہ ہے اور اپنے آپ میں کئی راز پوشیدہ کئے ہوئے ہے۔
اگرچہ اس کی خوبصورتی آنکھوں کو خیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، لیکن سقطری کو دجال سے منسوب کیا جاتا ہے اور اسے “دجال کا جزیرہ” بھی کہا جاتا ہے۔
دجال کون ہے؟
دجال وہ کردار ہے جس کا ذکر ہمارے نبی ﷺ کی کئی حدیثوں میں اور اسے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک کا سب سے بدترین فتنہ قرار دیا گیا ہے۔ عالم اسلام کے لیے دجال کا ظہور انتہائی مشکل ترین اور فتنہ انگیز ہوگا۔
دجال شیطانی قوتوں کا حامل ہوگا، دنیاوی طاقتوں سے مالا مال ہو گا اور ان کے ذریعے دنیا میں تباہی مسلط کرے گا۔
“دجال” عربی زبان میں جعل ساز، ملمع ساز اور فریب کار کو بھی کہتے ہیں اورکسی نقلی چیز پر سونے کا پانی چڑھانے کو بھی کہتے ہیں۔
دجال کا یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ جھوٹ اور فریب اس کی شخصیت کا نمایاں ترین وصف ہوگا۔ اس کے ہر فعل پر دھوکا دہی اور غلط بیانی کا سایہ ہوگا۔ کوئی چیز، کوئی عمل، کوئی قول، اس شیطانی عادت کے اثرات سے خالی نہ ہوگا۔
احادیث کی روشنی میں کسی خاص جگہ کو دجال کے ظہور کے لیے مختص نہیں کیا گیا، البتہ چار مقامات میں بظاہر تضاد معلوم ہونے کی صورت میں اس کی تطبیق یوں بیان کی گئی ہے کہ دجال کا خروج سب سے پہلے شام اور عراق کے درمیان کی گھاٹی سے ہوگا، مگر اس وقت اس کی شہرت نہ ہوگی، اس کے اعوان و انصار (مدد گار) یہودیہ گاؤں میں اس کے منتظر ہوں گے، وہ وہاں جائے گا اور ان کو ساتھ لے کر پہلا پڑاؤ خوز و کرمان میں کرے گا، پھر مسلمانوں کے خلاف اس کا خروج خراسان سے ہوگا۔
سقطری کہاں ہے؟
اس جزیرے کے شمال میں یمن ہے تو مغرب میں افریقی ملک صومالیہ واقع ہے، جنوب میں بحیرہ ہند ہے تو شمال مغرب میں دنیا کی اہم ترین تجارتی گزر گاہ ہے۔
یہ جزيرہ حقیقت میں افریقہ کا حصہ تھا مگر 50 لاکھ سال قبل جب دنیا کے تمام براعظموں سے جدا ہوگیا۔
یہاں کے نباتات، چرند پرند اور دیگر ماحول دنیا کے ہر حصے سے کافی حد تک مختلف ہیں۔
دجال کا ظہور اور سقطری جزيرہ
احادیث سے ثابت ہے کہ دجال کا ظہور مشرق سے ہوگا اور ایسی جگہ سے ہوگا جہاں سے وہ پورے مشرق وسطیٰ کو وہ متاثر کر سکے، اس کے علاوہ اس کی رہائش کی جگہ منفرد ہوگی تو ان تمام نشانیوں کے سبب لوگ اس جزيرے کو دجال کے جزیرے کے نام سے پکارتے ہیں۔
صرف یہی نہیں، اس جزیرے کا عرفی نام گالاپاگوس آف عرب ہے اسے “ایلین آئی لینڈ” بھی کہا جاتا ہے۔
زرخیزی
اس جزیرے کی مٹی کو دنیا کی زرخیز ترین مٹی میں شمار کیا جاتا ہے جس میں نہ صرف اُگنے کی طاقت بہت زیادہ ہے بلکہ یہاں پر اُگنے والے نباتات دنیا کے دیگر حصوں سے مختلف اور انوکھے ہوتے ہیں جو دنیا کے کسی اور حصے میں نہیں اُگ سکتے۔
دو بھائيوں کے خون والا درخت
اس جزیرے میں ایک خاص قسم کا درخت پایا جاتا ہے جسے “ڈریگن بلڈ ٹری” کہا جاتا ہے۔ مقامی لوگ اس درخت کو “دم الاخوین” کے نام سے بھی پکارتے ہیں جس کا مطلب دو بھائيوں کے خون والا درخت ہے۔
اس درخت کے تنے سے خون کے رنگ کا ایک رس نکلتا ہے جسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے درخت سے خون بہہ رہا ہو۔
اس درخت سے خون نما نکلنے والی اس گوند کو ماضی میں مختلف کاموں کے لیے مقدس سمجھ کر استعمال کیا جاتا تھا اور حالیہ دور میں بھی اس کا استعمال کاسمیٹکس اور مختلف ادویات میں کیا جاتا ہے۔
بوٹل ٹری
اس جزیرے میں ایک اور انوکھا پودا جو پایا جاتا ہے جسے “بوٹل ٹری” کہتے ہیں۔
اس کا تنا نیچے والے حصے میں بوتل کی طرح چوڑا ہوتا ہے جب کہ اوپر جاتے جاتے یہ پتلا اور نازک ہو جاتا ہے۔
اس پودے پر لگنے والے پھول اتنے خوبصورت ہوتے ہیں کہ ان کو صحرائی گلاب بھی کہا جاتا ہے لیکن یہ پودا شدید زہریلا ہوتا ہے۔
اس جزیرے پر تقریباً 700 ایسے نباتات پائے جاتے ہیں جو دنیا کے کسی اور حصے میں نہیں پائے جاتے۔
جزیرے میں بیک وقت صحرا، ساحل، پہاڑ اور غار موجود ہیں، اس جزیرے میں ایک جانب سفید مٹی کے ساحل موجود ہیں تو دوسری جانب اسی مختصر سے جزیرے میں 1500 میٹر بلند پہاڑ بھی موجود ہیں جہاں ایسی غاریں موجود ہیں جن میں قدیم دور کے انسانوں کے نشانات موجود ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ یہ جزیرہ روز اول سے انسانوں کا مسکن تھا۔
خوبصورتی اور انوکھا پن
یہ جزیرہ بہت سی شاندار شکل والی وادیوں سے بھی بھرا ہوا ہے جس میں صاف ندیاں سفید ریت کے ساحلوں کے وسیع حصوں تک بہتی ہیں۔
جولائی 2008 میں، یونیسکو نے سقطری جزیرے کو عالمی قدرتی ورثہ سائٹ کے طور پر نامزد کیا تھا۔
لہٰذا، سقطری پر آپ کو کوئی ہوٹل، ریستوراں یا دیگر عمارتیں نہیں ملیں گی کیونکہ یونیسکو جزیرے کی قدرتی صداقت کو برقرار رکھتا ہے۔
سقطری جزیرے کے باشندوں کی زندگیاں بھی اس لیے ایک معمہ سمجھی جاتی ہیں کیونکہ ان کی زندگیاں جدید معاشرے سے الگ تھلگ ہیں۔
یہاں کے باشندے اب بھی اپنی روایات اور رسم و رواج کے لیے لڑنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔