اسلام آباد ہائی کورٹ نے مسلح افواج میں بغاوت پر اکسانے کے مقدمہ میں شہبازگل کی ضمانت منظورکرنے سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کردیا۔
شہبازگل کی ضمانت گزشتہ روز 5 لاکھ روپے کے مچلکوں کےعوض منظور کی گئی تھی۔
چیف جسٹس ہائیکورٹ اطہر من اللہ کی جانب سے 6 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اندراج مقدمہ کے لیے شکایت آرمڈ فورسز یا ان کی جانب سے کسی نے درج نہیں کروائی۔
جس ایڈیشنل سیشن جج نے 30 اگست کو شہباز گل کی درخواست ضمانت مسترد کی جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا۔
فیصلے کے مطابق پٹیشنرکے وکیل سلمان صفدر کے مطابق بغاوت پر اکسانے کا جرم نہیں بنتا، مقدمہ سیاسی بنیادوں پر بنایا گیا جو بدنیتی پر مبنی ہے، ٹرائل کورٹ بھی مطمئن ہے کہ پاکستان پینل کوڈ دفعہ 131 کے علاوہ کوئی جرم نہیں بنتا۔
پراسیکیوٹر نے دلائل دیے کہ تقریر بغاوت کے مقدمے کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے، شہباز گل نے مسلح افواج کے ممبرز کو افسران کے آرڈرز نہ ماننے کا کہا اور وہ بغاوت پر اکسانے کے سنگین جرم کے مرتکب ہوئے۔
عدالت نے فیصلے میں مزید لکھا پراسیکیوٹر نہیں بتا سکے کہ شہباز گل نے جرم کی معاونت کے لیے مسلح افواج کے کسی افسر سے رابطہ کیا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پراسیکیوشن ایسی کوئی چیز بھی ریکارڈ پر نہیں لائی کہ آرمڈ فورسز کی جانب سے شکایت درج کرائی گئی ہو۔ کسی سیاسی جماعت کے ترجمان سے اس قسم کے لاپرواہ بیان کی توقع نہیں کیا جا سکتی۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ کہ آرمڈ فورسز کا ڈسپلن اتنا کمزور نہیں کہ ایسے غیر ذمہ دارانہ بیان سے اسے نقصان پہنچے۔ ہر سماعت پر عدالت حاضری یقینی بنانے کے لیے ٹرائل کورٹ شہباز گل کو پابند کر سکتی ہے۔ شہباز گل کی 5 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں پر ضمانت منظور کی جاتی ہے۔