پاکستان کے صوبہ سندھ میں فرسودہ رسوم ورواج کے نام پر قتل کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے، صوبے کے کئی اضلاع میں حالیہ سال ریکارڈ 253 خواتین اور مردوں کوغیرت کے نام پر قتل کرنے کے واقعات پیش آئے۔
ایسی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں کہ ایسے کیسزمیں سالوں گزرجانے کے باوجود قتل کے ملزمان کو اب تک سزائیں نہ مل سکیں۔
محمد خان نامی شخص نے مقامی جاگیرداروں وسرداروں کی جانب سے اس قسم کے واقعات آپس میں ہی نمٹانے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ میری بہن (نام مخفی رکھا گیا ہے) کے شوہرنے اسے غیرت کے نام پرقتل کیا۔ یہ واقعہ 23 جنوری 2022 کا ہے، جب مجھے علم ہوا تو میرے پیروں تلے زمین نکل گئی ،میں نے فوراً متعلقہ تھانے میں جاکرمقتولہ کے شوہر اوراس کے اہل خانہ کے خلاف اپنی مدعیت میں مقدمہ درج کروایا تھا۔
محمد خان کے مطابق پولیس نے جب قاتلوں کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے تو انہوں نے علاقائی سرداروں کے ذریعے ہم پردباؤ ڈلوایا،یہاں تک کہ انہوں نے میرے اہل خانہ کو جرگہ بلانے کو کہا جس میں مقامی سردارنے میری بہن کے قاتل شوہرکا الزام سچ مان کرمخالف ( جس شخص پربہن کے ساتھ تعلق میں رہنے کا الزام عائد کیاگیا تھا ) پر10 لاکھ جرمانہ عائد کیا، جس میں سے 5 لاکھ ہمارے اہل خانہ اور 5 لاکھ مقتولہ کے شوہر اوراس کی فیملی کودیے گئے، اس طرح علاقائی سرداروں نے میری بہن کے قتل کا فیصلہ کیا۔
محمد رمضان نامی شخص نے غیرت میں قتل ہونے والی بیٹی سے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ ، “میری 18 سالہ جوان بیٹی (ف) سے جس کی شادی کو 6 ماہ گزرے تھے، دیورنے زبردستی کرنے کی کوشش کی اورمنع کرنے پراُس نے میری بیٹی کوغیرت کے نام پرالزام لگا کرقتل کردیا” ۔
واقعہ 25مارچ 2022 کو تنگوانی تھانے کی حدود میں پیش آیا تھا، محمد رمضان کے مطابق اس نے تھانے کے بہت چکر لگائے مگر بیٹی کے شوہرنے اسے خاموش رہنے پر مجبورکردیا اور 6 ماہ گزرجانے کے باوجود اسےتاحال انصاف تک فراہم نہیں کیاگیا جبکہ ملزم آزادی کے ساتھ گھوم رہا ہے۔
اندرون سندھ میں غیرت کے نام پرقتل میں ریکارڈ اضافہ
پولیس ریکارڈ اور سماجی تنظیم کےاعداد و شمارکے مطابق رواں سال سندھ میں 7 ماہ کے دوران مجموعی طورپر252 انسانی جانیں لے لی گئیں جن میں 130 خواتین بھی شامل ہیں۔
ایس ایس پی کے ریڈر شاہد میرانی کے مطابق ضلع کشمورمیں 7 ماہ کے دوران غیرت کے نام پرقتل کیے جانے والے 67 افراد میں سے 53 خواتین اور 14 مرد شامل ہیں، 9 کیسز میں ملزمان دیور اور 5 میں چچازاد بھائی ہیں، 2 واقعات میں باپ اور 3 میں بھائی اور 2 میں سُسرنامزد ہیں ۔
خواتین کے حقوق سے متعلق کام کرنے والی تنظیم کی رہنما ڈاکٹرعائشہ دھاریجو کے مطابق اندرون سندھ مختلف اضلاع میں رواں سال 6 جون تک کے اعداد وشمار کے مطابق 88 خواتین اور 123 مرد کوغیرت کے نام پرقتل کیا گیا۔
سروے کے مطابق سال 2022 جنوری سے 21 فروری ، 24 مارچ ، 22 اپریل ، 20 مئی اور 13 جون تک 211 انسانی جانیں کارو کاری کے الزام میں قتل کی گئیں۔
سب سے زیادہ ضلع گھوٹکی میں 12 خواتین جبکہ 18 مرد قتل کیے گئے۔
کشمور میں 11 خواتین اور 14 مردوں کو قتل کیا گیا۔
جیکب آباد میں 7 خواتین اور 13 مردوں کو سیاہ کاری کے الزام میں جان سے مارا گیا۔
شکارپور میں 7 خواتین اور 10 مرد قتل کیے گئے، خیرپور میں 7 خواتین اورسکھر میں 4 خواتین اس الزام میں جان سے گئیں۔
اس طرح سے سندھ کے دیگراضلاع سمیت مجموعی طورپر88 خواتین اور 123 مردوں (211 ) کو قتل کیاگیا۔
ڈاکٹر عائشہ دھاریجو نے بتایا کہ سندھ میں قبائلی جگھڑے خونی تنازعات کی شکل اختیارکرگئے ہیں ، خاص طور پرضلع کشمور، گھوٹکی ،شکارپور کے کچے کے علاقوں میں ایسا ہورہا ہے کہ کبھی خواتین کو کاری قرار دے کر قتل کیا جاتا ہے ، کبھی حصول تعلیم کی خواہش کی پاداش میں ایساکیا جاتا ہے مگرسندھ حکومت نے تاحال اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبرامداد کھوسو کے مطابق کارو کاری کے الزام میں قتل کردی جانے والی خواتین کو انصاف فراہم کرنے کے لیے سال 2021 جون سے جولائی 2022 تک 50 سے زائد ایسے کیسزرپورٹ ہوئے جن میں 20 سے زائد ملزمان کیخلاف مقدمات درج کروائے گئے۔ ایچ آر سی پی کی جانب سے مدعی کو کیس لڑنےکے لیے وکیل بھی فراہم کیے گئےمگرعدالتوں کی سست روی کے باعث 10، 10 سال پُرانے کیسزبھی تاحال زیرالتوا ہیں۔
امداد کھوسو نےبتایا کہ سیاہ کاری کے نام پرسندھ میں کاروبارچلایا جارہا ہے، خواتین پرکاری کا الزام عائد کرنے کے بعد اگرانہیں قتل نہ کیا جائے توفروخت کردیا جاتا ہے، یا پھرکسی بڑی عمر کے آدمی سے شادی کروا دی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے اقدامات کی روک تھام کے لیے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے آگاہی مہم اور ریلیاں بھی نکالی جاتی ہیں لیکن سیاہ کاری کے خاتمے کے لئے تعلیم کوعام کرنا ہوگا، بچیوں کو تعلیم کی سہولت فراہم کرنا ریاست کا کام ہے جس کےعام ہونےسے ہی ان رسومات کا خاتمہ ممکن ہے۔