ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری کو دھمکی دینے پر توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ سناتے ہوئے کیس کی سماعت دو ہفتے کیلئے ملتوی کردی۔
عدالت نے عمران خان کا جواب غیر تسلی بخش قرار دے دیا۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالتی معاونین کے ہم بہت مشکور ہیں، دو ہفتے بعد چارج فریم کریں گے۔
22 ستمبر کوعمران خان پر فردِ جرم عائد کی جائے گی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔
بینچ میں جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار بھی شامل ہیں۔
عمران خان کی نشست سے کھڑے ہوکر روسٹرم پر آنے کی استدعا کی اور کہا کہ کیا میں آکر اپنا موقف بیان کر سکتا ہوں؟
جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ ہم نے سب وکلا کے دلائل سن لئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: فردِ جُرم کیا ہوتی ہے۔۔۔؟
عمران خان اپنے وکیل حامد خان کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے جبکہ عدالتی معاونین منیر اے ملک، اختر حسین، اٹارنی جنرل اشتر اوصاف اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بھی عدالت میں موجود تھے۔
حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز عدالت میں ضمنی جواب جمع کرایا گیا، چاہتے ہیں توہین عدالت کی کارروائی ختم کی جائے، گزشتہ سماعت پر عدالت نے سپریم کورٹ کے توہین عدالت کیسز کا جائزہ لینے کا حکم دیا تھا۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ طلال چوہدری اور دانیال عزیز کیسز عمران خان کیس سے بہت مختلف ہیں، ہم نے نہایت احترام کے ساتھ گزارشات پیش کردی ہیں، عدالت نے ایک اور موقع دیا جس پر تفصیلی جواب داخل کرا دیا ہے۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ توہین عدالت 3 طرح کی ہوتی ہے، جس کو فردوس عاشق اعوان کیس میں بیان کیا گیا، دانیال عزیز اور طلال چوہدری کیخلاف کریمنل توہین عدالت کی کارروائی نہیں تھی، ان کیخلاف عدالت کو سکینڈ لائز کرنے کا معاملہ تھا۔
یہ بھی پڑھیں: فرد جرم کا ملزم کے خلاف کیس پر کیا اثر ہوتا ہے؟
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ آپ کو یہ چیز سمجھائی تھی کہ یہ معاملہ کریمنل توہین عدالت کا ہے، زیر التوا مقدمے پر بات کی گئی، آپ کا جواب پڑھ لیا ہے، ہم سپریم کورٹ کے فیصلوں کے پابند ہیں۔
حامد خان نے کہا کہ معافی کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا عدالت کے اطمینان پر منحصر ہے، جس پر جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ کریمنل توہین بہت حساس معاملہ ہوتا ہے، کریمنل توہین میں آپ کوئی توجیہہ پیش نہیں کرسکتے، ہم اظہار رائے کی آزادی کے محافظ ہیں لیکن اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دے سکتے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کے وکیل حامد خان کو توہین عدالت آرڈیننس کا سیکشن 9 پڑھنے کی ہدایت کردی۔
عدالت نے حامد خان کو سپریم کورٹ کے مختلف فیصلے پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی کسی ججز سے متاثرہ فریق ہے تو بھی طریقہ کار یہی ہے، کیا یہ بیان ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کے ججز متعلق ہوسکتا ہے؟، کیا کوئی سابق وزیراعظم قانون سے بالاتر ہونے کا مؤقف لے سکتا ہے؟، بار بار کہا کہ کوئی بھی کبھی بھی اس عدالت کو پہنچ نہیں سکتا، آپ نے جواب دیا مگر کیا کہا اس پر ابھی بھی احساس ہی نہیں۔
جس پر حامد خان نے کہا کہ مجھے جواب پڑھنے دیں، جو کہا اس کا احساس ہے اسی لیے یہاں کھڑا ہوں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے پہلے بھی کہا عدلیہ کی آزادی اور ڈسٹرکٹ جوڈیشری ریڈ لائن ہے، اتنی پولورائز سوسائٹی ہے کہ فالورز مخالفین کو پبلک مقامات پر بےعزت کرتے ہیں، اگر اس جج کے ساتھ بھی ایسا ہوجائے تو پھر کیا ہوگا ہم نے وکلا تحریک کے ثمرات حاصل نہیں کیے۔
سابق وزیراعظم کی پیشی کے موقع پر عدالت کے تمام داخلی دورازے بند کردیے گئے اور کمرہ عدالت میں پروجیکٹر اور اسپیکر بھی نصب کیے گئے۔
اس موقع پر عدالت کے باہر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں، رینجرز کی اضافی نفری کمرہ عدالت کے باہر تعینات ہے، ڈی آئی جی آپریشن اور ایس ایس پی آپریشن بھی عدالت پہنچے ہیں۔
عمران خان کی پیشی کے موقع پر پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو عدالت جانے سے روک دیا گیا۔
اسپیکر سبطین خان، وزیرداخلہ پنجاب ہاشم ڈوگر، میاں اسلم، راجہ بشارت اور راشد حفیظ کو بھی داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ صرف پاس رکھنے والوں کو عدالت جانے کی اجازت ہے۔
توہین عدالت کیس: عمران خان کی نئی درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر
اس سے قبل آج ہی توہین عدالت کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے نئی درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی۔
عمران خان کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں تحریری دلائل جمع کرانے کی متفرق درخواست دائر کی گئی۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ازخود نوٹس لینا ہائیکورٹ کا اختیار نہیں ہے، توہین عدالت کیس ناقابل سماعت ہونے پر دلائل کو ریکارڈ پر رکھا جائے۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ تحریری دلائل کی وضاحت سماعت میں زبانی دلائل میں کی جائیں گی۔
عمران خان نے عدالت میں دوبارہ جواب جمع کرادیا
قبل ازیں اسلام آباد ہائیکورٹ میں گزشتہ سماعت پر عمران خان کو دوبارہ جواب جمع کرانے کیلئے مہلت دی گئی تھی ،جس پر عمران خان نے گزشتہ روز عدالت میں دوبارہ جواب جمع کرایا تھا۔
تحریری جواب میں خاتون جج زیبا چوہدری سے متعلق کہے گئے اپنے الفاظ پر عمران خان نے گہرے افسوس کا اظہار کیا ۔
جواب میں عمران خان نے مؤقف اختیار کیاکہ شہبازگل پر ٹارچر کا سن کر غیرارادی طور پر الفاظ ادا کیے، غیرارادی طور پر بولے گئے الفاظ پر افسوس ہے، مقصد خاتون جج کی دل آزاری کرنا نہیں تھا، اگر خاتون جج کی دل آزاری ہوئی تو اس پر افسوس ہے۔
سابق وزیراعظم نے اپنے جواب میں کہا کہ عدالت کو یقین دہانی کراتا ہوں کہ آئندہ ایسے معاملات میں انتہائی احتیاط سے کام لوں گا، نا تو کبھی ایسا بیان دیا نا مستقبل میں دوں گا جو کسی عدالتی زیر التوا مقدمے پر اثر انداز ہو۔
جواب میں انہوں نے مزید لکھا کہ میں عدلیہ مخالف بدنتیی پر مبنی مہم چلانے کا سوچ بھی نہیں سکتا، عدالت سے استدعا ہے کہ میری وضاحت کو منظور کیا جائے، عدالتیں ہمیشہ معافی اور تحمل کے اسلامی اصولوں کو تسلیم کرتی ہیں، عفو و درگُزر اور معافی کے وہ اسلامی اصول اس کیس پر بھی لاگو ہوں گے۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ عدالت نے مجھے ضمنی جواب جمع کرانے کا ایک موقع دیا جس پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی گئی۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے 19 صفحات پر مشتمل جواب اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کروایا گیا۔
واضح رہے کہ 31 اگست کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کے عبوری جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے 8 ستمبر تک دوبارہ جواب جمع کرانے کا حکم بھی دیا تھا۔