سپریم کورٹ نے تنخواہ دارطبقے پر اضافی ٹیکس کے حوالے سے ایف بی آر کی اپیلیں مسترد کر دیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ تنخواہ دارطبقے پراضافی ٹیکس کا جواز سمجھ نہیں آرہا۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3رکنی بینچ نے تنخواہ دار طبقے پر اضافی ٹیکس سے متعلق اپیلوں پرسماعت کی، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ اورجسٹس منصورعلی شاہ بھی بینچ میں شامل ہیں۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے ایف بی آر کے وکلاء کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کارپوریٹ سیکٹر میں 10 لاکھ تنخواہ پر 30 فیصد ٹیکس کا کیا جواز ہے؟ ٹیکس عائد کرنے پر تفریق کیوں کی گئی۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ ہم جاننا چاہتےہیں ایسا کیوں کیا گیا ؟۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ 10 لاکھ فیس لینے والے وکیل اور بزنس مینوں پر 30 فیصد ٹیکس کیوں نہیں؟ پاکستان میں بہت سے لوگ ایک ملین سے زائد کماتے ہیں، آپ بلکل ٹیکس لگائیں، 90 فیصد ٹیکس لگادیں لیکن تفریق نہ کریں۔
ایف بی آر کے وکیل نے جواب دیا کہ اضافی ٹیکس صرف بونس پرلگایا گیا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے بونس کے آمدن کا حصہ نہ ہونے کا سوال کرتے ہوئے کہاکہ بونس پر الگ سے ٹیکس کیوں لگایا گیا؟ ۔
عدالت نے کہا کہ بونس بھی تو آمدن کا حصہ ہے، بونس پرالگ سے ٹیکس کیوں لگایا گیا؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یہ حکومت کا اختیار ہے کہ کس پر اور کتنا ٹیکس لگانا ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کمپنی منافع کماتی ہے تو بونس دیتی ہے، آپ نے کمپنی سے ٹیکس نہیں لیا اورملازم سے لے لیا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کارپوریٹ سیکٹرپرٹیکس عائد کرنے کا مؤقف اپنایا تو جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کارپوریٹ سیکٹر کی تعریف کیا ہے؟۔
اس پرایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کارپوریٹ سیکٹر کی کوئی تعریف نہیں ہے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ تنخواہ دارطبقے پر اضافی ٹیکس کا جواز سمجھ نہیں آرہا۔ بعدازاں عدالت نے ایف بی آر کی اپیلیں خارج کر دیں۔