سندھ کے ضلع دادو میں آنے والے سیلابی ریلے نے تباہی مچائی دی ہے، جس کے نتیجے میں تحصیل خیرپورناتھن شاہ مکمل طور پر پانی میں ڈوب گیا۔
دادوکی تحصیل جوہی اورمیہڑ میں رنگ بند پر پانی کے دباؤ کی وجہ سے لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں، جبکہ میرپورخاص کے ٹنڈو جان محمد کے گاؤں دیھ 202 کے سیم نالے میں شگاف پڑ گیا۔
نالے میں پڑنے والے 80 فٹ شگاف کے باعث ملحقہ دیہات زیر آب آگئے ہیں، جبکہ پانی میں گِھرے متاثرین کو ٹنڈو جان محمد کے ایس ایچ او جنید قمر نے پولیس ریسکیو ٹیم کے زریعے محفوظ مقامات پرمنتقل کردیا ہے۔
مقامی ایس ایچ او کے مطابق سیم نالے میں پڑنے والے شگاف میں پانی کا بہاو تیز ہونے کے باعث مشکلات آرہی ہیں تاہم شگاف کو جلد بند کردیا جائے گا ٹیمز مصروف عمل ہیں۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے اعداد و شمارکے مطابق سیلاب کی تباہ کاريوں کے باعث مزيد 57 افراد جاں بحق ہوگئے، جس کے بعد اموات کى کُل تعداد 1 ہزار265 ہوگئی ہے، جبکہ سندھ میں 470 ، بلوچستان 257، خیبر پختون خوا میں 285 اموات ہوئی ہیں۔
اس کے علاوہ 243 پُل، 5 ہزار 563 کلو ميٹرسڑک کو نقصان پہنچا اور5 لاکھ 29 ہزار گھر مکمل تباہ ہونے کے ساتھ 7 لاکھ 35 ہزارمويشی ہلاک ہوگئے۔
دوسری جانب ضلع قمبرشہدادکوٹ کے شہر گاجی کھاوڑ شہر کے گرد اپنی مدد آپ کی تحت بنایا حفاظتی بند ٹوٹنے سے 30 ہزارنوس پرمشتمل شہرڈوب گیا ہے۔
سیلابی پانی اسپتال سمیت مختلف علاقوں میں داخل ہوگیا ہے جس کے بعد لوگوں نے شہر سے نقل مکانی شروع کردی۔
سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری
سیلابی ریلا دادو میں داخل ہوچکا ہے جس کے بعد متاثرین اپنی مدد آپ کے تحت اقدامات کرتے ہوئےگھروں کو سیلابی پانی سے بچانے کے لیے بوریوں سے بند باندھنے لگے۔
جوہی، خیرپور ناتھن شاہ کے علاقے ڈوب گئے ہیں جبکہ دادو، بدین، کندھ کوٹ اور ٹھٹھہ کے سینکڑوں دیہات تاحال زیرآب ہیں۔ سندھ میں سیلاب متاثرین کو خیمے دستیاب ہیں نہ ہی ادویات جس کی وجہ سے ہیضے اور گیسٹرو میں مبتلا سیلاب زدگان امداد کے منتظرہیں۔
موسمیاتی تبدیلی کی وزیر شیری رحمان نے جمعرات کو اسلام آباد میں ایک سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “پاکستان کا 70 فیصد حصہ ڈوب گیا ہے، انہوں نے حالیہ شدید بارشوں کو “تباہ کن” قرار دیتے ہوئے بتایا تھا کہ جون کے وسط سے اب تک سندھ میں 432 اموات ہوچکی ہیں۔
— Youth4Climate Pakistan (@Y4C_Pk) September 1, 2022
موسلا دھاربارشوں کے باعث آنے والے سیلابی ریلے نے ضلع دادو کی 4 تحصیلوں میں سے ایک خیرپور ناتھن شاہ کو ڈبو دیا ہے، محتاط اندازوں کے مطابق جوہی کا 70 فیصد علاقہ بشمول دیہی اور شہری، میہڑ کا 60 فیصد اور دادو کا 30 فیصد حصہ سیلاب کی زد میں ہیں۔
مرکزی تحصیل دادو کے مقامی لوگوں کو خدشہ ہے کہ پانی مضافاتی علاقوں سے ٹکرانے کے بعد آبادی والے علاقوں میں داخل ہوجائے گا۔
دادو انتظامیہ نے ریڈ الرٹ جاری کرتے ہوئے لوگوں کو محفوظ مقامات پرمنتقل ہونے کا مشورہ دیا ہے ۔
سندھ: سیلاب کی تباہ کاریاں، سیلابی ریلا دادو میں داخل، متاثرین کے اپنی مدد آپ کے تحت اقدامات، سیلاب متاثرین خیموں اور ادویات سے محروم #FloodsInPakistan2022 pic.twitter.com/PeiGbaFfOI
— Aaj News (@Aaj_Urdu) September 2, 2022
بہت سے سیلاب متاثرین نے شکایت کی ہے کہ انہیں صاف پانی اورخوراک نہیں مل رہی، نہ ہی انتظامیہ موجود تھی۔ متاثرین نے دعویٰ کیا کہ پرائیویٹ جہاز مالکان جنہوں نے متاثرہ علاقوں سے سامان لے جانے کے لیے لوگوں کو سروس فراہم کرنا شروع کر دی ہے، وہ بھاری فیسیں وصول کر رہے ہیں اور اس کام میں پولیس بھی ملوث ہے۔
پاکستان میں جون سے اگست کی سہ ماہی میں 30 سالہ اوسط سے تقریباً 190 فیصد زائد ( کل 390.7 ملی میٹریا 15 اعشاریہ 38 انچ ) بارش ہوئی ، سب سے زیادہ متاثر 50 ملین کی آبادی والا صوبہ سندھ ہوا جہاں گزشتہ 30 سال کی اوسط سے 466 فیصد زائد بارش ہوئی۔
سیلاب سے متاثرہ خاندانوں نےسڑکوں پر پناہ لے رکھی ہے۔
شیری رحمان نے امدادی سرگرمیوں اور صورتحال کا 2008 کے زلزلے اور 2010 کے سیلاب سے موازنہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ، “اس بارکوئی نہیں جانتا تھا کہ کیا کرنا ہے”۔کھڑے پانی کے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے اور بہت زیادہ ہے۔ یہ بہت سے علاقوں میں پانی کی گہرائی 10 فٹ تک ہے اور یہ بخارات بن کر اُڑتابھی نہیں ہے۔