اسلام آباد ہائیکورٹ نے خاتون جج کو دھمکیاں دینے سے متعلق توہین عدالت کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کو 7 دن میں دوبارہ تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 رکنی لارجربینچ نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔
عدالتی حکم پر پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ماتحت عدلیہ بہت مشکل حالات میں کام کررہی ہے، عام آدمی کو70سال میں بھی ہائیکورٹ اورسپریم کورٹ تک رسائی نہیں، ضلعی عدالت عام آدمی کی عدالت ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے مزید ریمارکس دیئے کہ عمران خان کے تحریری جواب سے ذاتی طور پر افسوس ہوا، ماتحت عدلیہ کا اعتماد بڑھانے کے لیے اس عدالت نے بہت کام کیا، توقع تھی اس عدالت میں پیش ہونے سے پہلے وہاں سے ہوکر آتے، گزرے وقت کی طرح زبان سے کہی بات واپس نہیں آتی ۔
انہوں نے ریمارکس دیئے کہ جبری گمشدگیاں بد ترین ٹارچر ہے، بلوچ طلبہ کے ساتھ جوہوا وہ بھی ٹارچرہے، 3 سال سے ہم ان معاملے کو وفاقی حکومت کو بھیجوا رہے ہیں لیکن ٹارچرکوسنجیدہ نہیں لیا گیا، آپ کا جواب اس بات کا عکاس ہے کہ جو ہوا اس کا آپ کواحساس تک نہیں، آپ کا تحریری جواب پڑھ لیا ہے،ججوں سے متعلق جوکہا گیا اس کی توقع نہیں تھی۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ توقع تھی آپ یہاں آنے سے پہلے ماتحت عدالت سے ہوکرآئیں گے، توقع تھی آپ کنڈکٹ سے ظاہرکریں گے قانون کی عملداری پریقین رکھتے ہیں، عمران خان کو یہ کریڈٹ ضرورجاتا ہے انہوں نے جوڈیشل کمپلیکس بنایا۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ جس ماتحت عدالت پربات کی گئی وہ عام آدمی کی عدالت ہے، عام آدمی کوآج بھی ہائیکورٹ تک رسائی نہیں ملتی، مجھے توقع تھی کہاجائےگا غلطی ہوگئی، توقع تھی آپ ان عدالتوں میں جا کرکہیں گے ہمیں آپ پراعتبارہے، جس طرح گزرا وقت واپس نہیں آتا کہے گئے الفاظ بھی واپس نہیں ہوتے، عمران خان کے قد کے آدمی کوکیا ایسا کرنا چاہیئے تھا؟ ۔
چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ سب سے بد ترین ٹارچرجبری گمشدگیاں ہیں ،ٹارچر کا معاملہ تو ہم نے بھی 3سال بلا خوف اٹھایا، ٹارچر کی تو 70سال میں ریاست نے خود حوصلہ افزائی کی، 3سال میں کاش اسی جوش جذبے سے ٹارچرکا معاملہ اٹھایاجاتا۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے صحافی اسد طور اورابصارعالم کیس کا بھی حوالہ دیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے حامد خان سے مکالمہ کیا کہ آپ کے کلائنٹ کو شاید احساس ہی نہیں کہ ہوا کیا ہے، ٹارچرکی کسی بھی سطح پراجازت نہیں دی جا سکتی۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اس عدالت کے قائمقام چیف جسٹس نےشہبازگل کامعاملہ واپس ریمانڈ کیاتھا۔
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل جہانگیرجدون کو بات کرنے سے روک دیا اور کہا کہ آپ خاموش رہیں یہ عدالت اور مبینہ توہین عدالت کے ملزم کے درمیان معاملہ ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ عدالت کے معاون ہیں خود کوکسی کاوکیل نہ سمجھیں۔
عدالت نے شہبازگل کے وکیل سلمان صفدر کو شہبازگل کیس کا فیصلہ پڑھنے کی ہدایت کی، جس پر شہبازگل کے وکیل سلمان صفدرنے کیس کا عدالتی فیصلہ پڑھ کرسنایا ۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کا استفسار کیا کہ اڈیالہ جیل کے کس کے ماتحت ہے ؟ کسی قیدی پرذرا بھی تشدد ہوتوکیا کوئی جیل اس کواس طرح رکھ لیتی ہے؟ عدلیہ اورججزاحتساب کے لیے حاضر ہیں، چاہے تنقید کریں، لیکن کیا عدالت میں زیرسماعت مقدمے پربات کرکے اثر انداز ہونے کی اجازت دیں؟
انہوں نے مزید کہا کہ سابق حکومت نے ایسا قانون بنایا تھا کہ تنقید کرنے والے 6 ماہ کے لیے اندرہوتے ،یہ پٹیشن اسلام آباد ہائی کورٹ سےکب نمٹائی گئی اورتقریرکب کی گئی؟
وکیل نے بتایا کہ پٹیشن 22 اگست کونمٹائی گئی اورتقریر20 اگست کوکی گئی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر التوا تھا توتقریرکی گئی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ پیکا آرڈیننس کے تحت اداروں پرتنقید کرنے والوں کو6ماہ ضمانت بھی نہیں ملنی تھی، اس عدالت نے اس کوکالعدم قراردیا توعدالت کے خلاف مہم چلائی گئی،عدالت نے اس کی کبھی پرواہ نہیں کی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکور ٹ نے کہا کہ آپ نے توہین عدالت کے معاملے پرفردوس عاشق اعوان کی ججمنٹ پڑھی ہوگی، عدالت اوپن ہونا کلیئرمیسج تھا کہ 12اکتوبر1999دوبارہ نہیں ہوگا، عمران خان نے کہا کہ عدالتیں کیوں 12 بجے کھلیں،یہ عدالت کسی بھی کمزوریا آئینی معاملے کے لیے 24گھنٹے کھلی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کورٹ نےکبھی بھی پرواہ نہیں کی کیا کہا جا رہا ہے، مجھے ایک فلیٹ کا مالک بھی بنا دیا گیا، میری سپریم کورٹ کے ایک جج کے ساتھ فوٹو تھی جسے ایک سیاسی جماعت کا عہدیدار بنا کروائرل کیا گیا، ہمارے ادارے نے بھی بہت غلطیاں کی ہیں جن پرتنقید کو ویلکم کرتے ہیں ۔
حامد خان نے کہا کہ میں نے درخواست کےقابل سماعت نہ ہونےکا نکتہ بھی اٹھایا ہے، اس کےعلاوہ بھی باتیں کی ہیں، جواب کا صفحہ نمبر10ملاحظہ کریں، عمران خان کاایسا کوئی ارادہ نہیں تھاکہ وہ جوڈیشل افسرکے بارے میں یہ کہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ کی آزادی اورعوام پرڈسٹرکٹ کورٹس پراعتماد کا بھی معاملہ شامل ہے، اس عدالت کا صرف تشویش عدلیہ کی آزادی ہے ۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کے وکیل کوسپریم کورٹ کے 3 فیصلے پڑھنے کی ہدایت کردی۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ دانیال عزیز،نہال ہاشمی اورطلال چوہدری کےفیصلے پڑھیں،آپ نے جوبھی لکھ کردینا ہے سوچ سمجھ کرلکھیں، آپ اس معاملے کی سنگینی کا بھی اندازہ لگائیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ توہین عدالت کی کارروائی آج ختم ہوسکتی تھی مگراس جواب کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا۔
چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ نے کہا کہ کہ آپ بتائیں کہ کیا اس کیس میں کسی کوعدالتی معاون بھی مقررکریں، اس ملک میں تبدیلی تب آئےگی جب تمام ادارے اپناکام آئین کے مطابق کریں۔آپ کومعلوم ہے کہ مطیع اللہ جان کے ساتھ کیاہوا تھا؟
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ کوجواب داخل کرانے کا ایک اورموقع دیا گیا ہے، آپ اس پرسوچیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کو7 دن میں دوبارہ تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ ہمیں الزام دیتے ہیں کہ پاکستان کی عدلیہ 130 ویں نمبر پر ہے، ہم نے ایک کیس میں فواد چوہدری کو بتایا کہ وہ نمبرعدلیہ کا نہیں، ایگزیکٹو کا تھا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاق کے نمائندے کو ہدایت کی کہ آپ بھی بغاوت اورغداری کے کیسز پر نظرثانی کریں۔
بعدازاں عدالت نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت 8 ستمبر تک ملتوی کردی۔
قبل ازیں عمران خان کی عدالت پیشی کے موقع پر سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے اور وکلا کے سوا کسی بھی شخص کو کمرہ عدالت میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
اس سے قبل عمران خان نے توہین عدالت کے شوکازنوٹس پرگزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ میں جواب جمع کرواتے ہوئے اپنے الفاظ واپس لینے کی پیشکش کی تھی۔
مزید پڑھیں: عمران خان توہین عدالت کیس: ایک روز قبل ضابطہ اخلاق کا سرکلر جاری
شعیب شاہین ایڈووکیٹ، بیرسٹر سلمان صفدر اور فیصل چودھری ایڈووکیٹ کی وساطت سے عدالت میں جمع کروائے جانے والے جواب میں عمران خان نے کہا کہ ججز کے احساسات کو مجروح کرنے پر یقین نہیں رکھتا، الفاظ غیر مناسب تھے تو واپس لینے کےلیے تیار ہوں۔
عمران خان نے مؤقف اختیارکیا کہ عدالت میری تقریر کے سیاق وسباق میں جائزہ لے۔ میں نے زندگی بھرقانون اورآئین کی پاسداری کی ہے، دہشت گردی کا مقدمہ بے بنیاد ہے، لہٰذا اسے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے خارج کردیا جائے۔
مزید پڑھیں: عمران خان کی لائیو تقاریر پر عائد پابندی ختم
اسلام آباد ہائیکورٹ کے لارجر بینچ نے 23 اگست کو عمران خان کوشوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری کے بارے میں دھمکی آمیز ریمارکس سے متعلق توہین عدالت کیس میں 31 اگست کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔
سابق وزیراعظم کے خلاف وفاقی دارالحکومت کے مارگلہ تھانے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت عدلیہ اور اعلیٰ پولیس افسران کو دھمکیاں دینے کا مقدمہ درج ہے۔
کیس کا پس منظر
عمران خان نے20 اگست کو ایف نائن پارک میں احتجاجی جلسے سے خطاب کے دوران شہباز گل پر مبینہ تشدد کے خلاف آئی جی اور ڈی آئی جی اسلام آباد پر کیس کرنےکا اعلان کیا تھا۔
دوران خطاب عمران خان نے شہباز گل کا ریمانڈ دینے والی خاتون مجسٹریٹ زیبا چوہدری کو نام لے کر دھمکی بھی دی تھی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ، “آئی جی، ڈی آئی جی اسلام آباد ہم تم کو نہیں چھوڑیں گے، تم پر کیس کریں گے مجسٹریٹ زیبا چوہدری آپ کو بھی ہم نے نہیں چھوڑنا، کیس کرنا ہے تم پر بھی، مجسٹریٹ کو پتہ تھا کہ شہباز پر تشدد ہوا پھر بھی ریمانڈ دے دیا” ۔
بعد ازاں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے قانونی کارروائی کا اعلان کرتے ہوئے ٹویٹ میں کہا تھا کہ خاتون مجسٹریٹ، آئی جی اور ڈی آئی جی پولیس کو دھمکی دینے والوں کو قانون کا سامنا کرنا ہوگا۔
پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی(پیمرا) نے بھی سابق وزیراعظم عمران خان کا خطاب لائیو دکھانے پرپابندی( جسے 29 اگست کو 5 ستمبر تک کے لیے ختم کردیا گیا) عائد کرتے ہوئے 6 صفحات پرمشتمل اعلامیے میں کہا تھا کہ براہ راست تقاریر سے نقص امن پیدا ہونے کا خدشہ ہے، ٹی وی چینلز عمران خان کی تقریر ریکارڈ کر کے چلا سکتے ہیں۔