اسلام آباد ہائی کورٹ نے قائد مسلم لیگ (ن) نواز شریف اور وزیراعظم شہباز شریف کے خلاف توہین عدالت کی درخواست خارج کردی۔
عدالت نے سید ظفر علی شاہ کی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دے دیتے ہوئے کہا کہ توہین عدالت کی درخواست یہاں قابل سماعت نہیں ہے۔
عدالت نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ میں یہ درخواست اب بھی زیر سماعت ہے، لاہور ہائیکورٹ نے نوازشریف سےمتعلق عبوری حکم نامہ جاری کیا تھا جسے وفاقی حکومت اور نہ نیب نے چیلنچ کیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں سابق وزیراعظم نوازشریف اور وزیراعظم شہبازشریف کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پرسماعت ہوئی۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نےرجسٹرار آفس کے اعتراضات کے ساتھ درخواست پر سماعت کی، درخواست گزار وکیل ظفر علی شاہ عدالت میں پیش ہوئے۔
اس سے قبل درخواست گزار وکیل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ شہباز شریف کی درخواست پر 16 نومبر 2019 کو لاہور ہائیکورٹ کا آرڈر جاری ہوا، نواز شریف کی 2 اپیلیں اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرسماعت تھیں۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف اس وقت اسلام آباد ہائیکورٹ سے ضمانت پرتھے، اس وقت وفاقی کابینہ نے 25 ملین روپے کی شرط کےساتھ ایک دفعہ بیرون ملک جانے کی اجازت دی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ ایکزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نام نکالنے کی منظوری اس وقت کی وفاقی کابینہ نے دی، اپیل اس عدالت میں زیرالتوا تھی تواس وقت کی حکومت نے اس عدالت سے نہیں پوچھا، اس وقت کی وفاقی کابینہ نے اجازت دے دی تھی لیکن صرف پیسے جمع کرانے کی شرط تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے آپ سینئر کونسل ہیں یہ بتائیں ایک معاملہ دوسری عدالت میں زیر التوا ہے ہم کیسے سن سکتے ہیں ، یہاں پر اپیلیں زیر التوا تھیں اس کے باوجود حکومت نے نام ای سی ایل سے نکالا تھا عدالت سے نہیں پوچھا۔
عدالت نے استفسار کیا کسی عدالت نے آرڈر تو نہیں کیا تھا کہ ای سی ایل سے ہٹا دیں، جس پر وکیل نےبتایا کہ کسی کورٹ نے آرڈر نہیں کیا اس وقت کی وفاقی کابینہ نے شرط رکھی تھی اور لاہور ہائیکورٹ کے سامنے شہباز شریف نے انڈر ٹیکنگ دی تھی۔
عدالت نے مزید استفسار کیا کہ کیا لاہور ہائیکورٹ کا وہ عبوری آرڈر تھا؟ کیا پٹیشن زیر التوا ہے؟ جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ 16 نومبر کے آرڈر کے بعد کا کچھ معلوم نہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس وقت عدالت اس معاملے میں نہیں جائے گی تو وکیل کا کہنا تھا کہ توہین عدالت پٹیشن کی اپنی نیچر ہے ہم میرٹس کو ٹچ نہیں کر رہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ ہم اس پٹیشن کو مثالی جرمانہ کے ساتھ خارج کرتے لیکن آپ سینئر وکیل ہیں اس لیے اس طرف نہیں جا رہے۔
عدالت نے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ پٹیشن واپس لینا چاہتے ہیں یا اس پر آرڈر پاس کریں ؟ ہم اس پٹیشن کو انٹرٹین نہیں کریں گے آرڈر پاس کریں گے۔
وکیل نے کہا کہ اگر آپ نے درخواست خارج کرنی ہے تو لاہور ہائیکورٹ جاؤں گا، جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ یہ آپ کا اختیار ہے آپ کسی عدالت سے بھی رجوع کر سکتے ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مزید ریمارکس دیے کہ آپ کہیں بھی جانے کے لیے آزاد ہوں گے، ہم آبزرویشن نہیں دیں گے ، ہم اس درخواست پر مناسب حکمنامہ جاری کریں گے۔
درخواست گزار وکیل سید ظفر علی شاہ نے کہا کہ اگر آپ نے درخواست مسترد کرنی ہے تو میں واپس لیتا ہوں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ عدالت اس پر کچھ نہیں کہہ سکتی، ہم اس درخواست پر آرڈر پاس کریں گے۔
بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے دلائل مکمل ہونے پر درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
درخواست میں شریف برادران سمیت وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کو فریق بنایا گیا تھا۔