سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ کراہت دلانے والے کیڑوں سے بنے برگر دنیا میں بڑھتی بھوک کا حل ہو سکتے ہیں۔
جنوبی کوریا کے سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ آٹے میں پائے جانے والے کیڑوں (سُرسُری) اور بیٹل لاروا کو تھوڑی سی چینی کے ساتھ ملا کر تیار کئے گئے “گوشت” کا ذائقہ مستند اور “کھانے کے قابل” ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان کیڑوں میں موجود پروٹینز بڑھتی ہوئی آبادی کی پریشانیوں کے دوران غذائی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھنے کی وجہ سے حالیہ دلچسپی کا باعث بن گئے ہیں۔
ڈاکٹر “ہی چو” کی زیرِ قیادت ایک پروجیکٹ میں بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے کھانے کی مقدار میں تبدیلیوں کو ضروری قرار دیا گیا، جس کے نتیجے میں “بَگ برگر” کے استعمال کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
ونک وانگ یونیورسٹی کے پروجیکٹ لیڈر ڈاکٹر چو کی ایک پریس ریلیز میں کہا گیا کہ مذکورہ برگر “ماحولیاتی مسائل” میں مدد کر سکتے ہیں۔
بیان میں لکھا گیا کہ “حال ہی میں جانوروں کے پروٹین کی بڑھتی ہوئی قیمت کے ساتھ ساتھ اس سے منسلک ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے کیڑوں کو کھانا دلچسپی کا باعث بن گیا ہے۔”
“کیڑے ایک غذائیت سے بھرپور اور صحت مند غذا کا ذریعہ ہیں جن میں گوشت کی طرح فیٹی ایسڈز، وٹامنز، معدنیات، فائبر اور اعلیٰ قسم کا پروٹین ہوتا ہے۔”
“سرسریوں میں فائدہ مند ضروری امینو ایسڈ ہوتے ہیں، اس میں غیر سیر شدہ فیٹی ایسڈز بھی زیادہ ہوتے ہیں۔”
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ 2050 میں 9.7 بلین کی آبادی کے ساتھ گائے کے گوشت کے متبادل کی ضرورت کو جنم دیا ہے۔
لیکن ان لوگوں کے لیے جو گائے کے گوشت یا برگر سے الگ ہونے کو تیار نہیں ہیں، سائنس دانوں نے ایک حل نکالا ہے، لیکن یہ اس سے کہیں زیادہ کیڑوں پر مبنی ہے۔
نیو یارک پوسٹ نے رپورٹ کیا کہ آزمائشوں اور غلطیوں کی ایک سیریز کے بعد، ایک “گوشت نما” متبادل چینی اور کیڑوں سے تیار کیا گیا، جس سے “گوشت جیسی” خوشبو آتی ہے جو سرونگ کے اختیارات میں تبدیلی لا سکتی ہے۔