اسلام آباد کی ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہبازگل کا مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔
ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری نے چند گھنٹے قبل محفوظ کیا جانے والا فیصلہ سناتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما کو 48 گھنٹے کیلئے پولیس کے حوالے کردیا۔
شہبازگل کا جسمانی ریمانڈ مسترد ہونے کے خلاف نظرثانی درخواست پر سماعت کا آغازاسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی کے دلائل سے ہوا تھا، جنہوں نے موقف اپنایا کہ دھمکیوں اورچوری کے کیس میں بھی آٹھ روزکا ریمانڈملتا ہے،یہ مقدمہ توبغاوت کی دفعات کے تحت درج ہے۔
انہوں نے کہا کہ تفتیشی افسر کی جسمانی ریمانڈ کی استدعا منظور نہ کیے جانا افسرکے اختیارات کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ ابھی مزید پہلوؤں پر تفتیش کی ضرورت ہے۔
جوڈیشل مجسٹریٹ نےلکھا کہ شہبازگل نےکہاموبائل ڈرائیورکےپاس ہے تو انہوں نے ملزم کے بیان کوحتمی کیسے مان لیا قانون شہادت کے مطابق یہ درست نہیں،ملزم کا پولی گرافک ٹیسٹ کروانا ہے۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نے بتایا کہ کیس میں ملزم کے موبائل سے ڈیٹا حاصل کرکے تفتیش کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ سارا مقدمہ ملزم کے بیان سے متعلق ہے، شہباز گل نے گرفتاری کے وقت سادہ فون دیا تھا، اصل سمارٹ فون تاحال برآمد نہیں کیا جاسکا۔
پراسیکیوٹررضوان عباسی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مجسٹریٹ کاآرڈرغیرآئینی ہے، جسمانی ریمانڈکی استدعا کوٹھیک طرح ہینڈل نہیں کیاگیا،پولیس کی جانب سےجسمانی ریمانڈکی استدعاکومنظورکیاجائے۔
دوران سماعت پولیس کے تفتیشی افسر نے ریکارڈ عدالت کے سامنے پیش کیا۔
شہباز گل کے وکیل سلمان صفدر نے ایف آئی آر پرسوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ میرے موکل کی باتغیرمناسب ہو سکتی ہے لیکن جرم کے زمرے میں نہیں آتی ، انہوں نےاپنے بیان کو تسلیم کیا ہے۔ ریمانڈ کا مقصد سیاسی انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے مزید تشدد کرنا ہے، مانتے ہیں کہ جو کہا گیا وہ نہیں کہنا چاہیے لیکن یہ بغاوت یااکسانے کےزمرے میں نہیں آتا نہ ہی اس پرکریمنل کیس بنتا ہے۔
سلمان صفدر نے اپنے دلائل میں کہا کہ آپ نے دیکھنا ہےمجسٹریٹ نے کیا زیادتی کی ہے؟ ملزم کو گاڑی کے شیشے توڑ کرگرفتار کیا گیا، ویڈیو میں ان سے موبائل لینا دیکھا جا سکتا ہے۔ انہوں نے استفسارکیا کہ کیا بغاوت پر اکسانے کا مقدمہ درج کرنے کے لیے وفاق سے اجازت لی گئی؟ ۔
سلمان صفدر نے عدالت میں شہباز گل کا بیان پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ اس بیان میں حب الوطنی جھلکتی ہے، صرف ایک جملہ نا مناسب تھا لیکن وہ بھی جرم کے زمرے میں نہیں آتا، اینکرنے سوال پوچھا جس پرجواب دیاگیاتوپہلے سے کیسے کچھ پلان ہوسکتا ہے۔ جنہوں نے فوج کو گالیاں دیں ان کو وزیردفاع بنایا گیا ہے۔
سلمان صفدر نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ پراسیکیوشن کےمطابق شہبازگل نےتقریرتسلیم کرلی،پھرباقی کیارہا؟ وہ زوردے رہے ہیں کہ شہبازگل نےکسی کے کہنےپرتقریرکی، چیزیں غلط توہوسکتی ہیں لیکن بغاوت،سازش یاجرم میں نہیں آتیں۔ شہبازگل کےانٹرویوکا کچھ حصہ نکال کرمقدمہ درج کیاگیا، انہوں نےاپنی تقریرمیں مسلم لیگ ن کے8 رہنماؤں کے نام لیے تھے، یہ کیس سیاسی انتقام لینےکیلئےبنایا ہے۔
شہبازگل کے معاون وکیل کے وکیل شعیب شاہین نےاپنے دلائل میں کہا کہ میرے موکل کے مخصوص جملوں کوتفتیش میں شامل کیاگیا، شہباز گل نے کہا کہ انہیں ذہنی طورپرٹارچرکرتےہیں، ان سے پوچھا گیا کہ عمران خان شراب پیتاہےیانہیں؟ سیاسی انتقام لینےکے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔
شعیب شاہین نے کہا کہ اگرضمانت ہوبھی گئی تب بھی تفتیش سے نہیں بھاگیں گے۔
واضح رہے کہ پولیس نے شہباز گل کاجسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد ہونے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کررکھی ہے۔
پس منظر
سابق وزیراعظم عمران خان کے چیف آف اسٹاف کو ٹی وی ٹاک شو میں ریاستی اداروں کےسربراہان کےخلاف بیانات کے الزام میں 9 اگست کو بنی گالا کے قریب سے گرفتار کیا گیا تھا۔
شہبازگل کے خلاف تھانہ بنی گالا میں سٹی مجسٹریٹ کی مدعیت میں بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا، ایف آئی آر میں اداروں اور ان کےسربراہوں کے خلاف اکسانے سمیت دیگر دفعات شامل ہیں۔