امریکہ میں 24 سالہ نوجوان ہادی مطر نے ملعون مصنف سلمان رُشدی کو جمعہ (12 اگست) کی صبح نیویارک کے چوتکوا انسٹی ٹیوشن میں قاتلانہ حملے کا نشانہ بنایا۔
ہادی مطر نے ہفتے کے روز عدالت میں پیشی کے دوران قتل کی کوشش اور حملہ کے الزامات سے انکار کیا ہے۔
سلمان رشدی کے ایجنٹ نے صحافیوں کو بتایا کہ مصنف کو ہسپتال میں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا ہے، وہ بولنے سے قاصر ہے، اس کے بازوؤں کی نسیں “منقطع” ہو چکی ہیں، جگر کو چھرا مارے جانے سے نقصان پہنچا ہے، اور وہ ایک آنکھ سے محروم ہو سکتا ہے۔
New Jersey police search house of 24-year-old Hadi Matar, who attacked Salman Rushdie, author of The Satanic Verses https://t.co/mu5qZhhs7W pic.twitter.com/KWMWyxg2rJ
— ANADOLU AGENCY (@anadoluagency) August 13, 2022
رشدی اپنے 1988 کے ناول “دی سیٹینک ورسس” (شیطانی آیات) کے کچھ حصوں کو گستاخانہ قرار دئے جانے کے بعد 1989 سے ایران کے سابق سپریم لیڈر آیت اللہ روح اللہ خمینی کے جاری کردہ ایک فتوے کے خطرے تلے زندگی گزار رہا ہے۔
جولائی 1991 میں ناول کے جاپانی مترجم ہیتوشی ایگاراشی کو جاپان میں چاقو کے وار کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا اور اس کا اطالوی مترجم ایٹور کیپریولو میلان میں چاقو کے حملے میں زخمی ہوا تھا۔
اکتوبر 1993 میں، “شیطانی آیات” کے نارویئن پبلشر ولیم نیگارڈ کو اوسلو میں گولی مار کر زخمی کر دیا گیا تھا۔
1998 میں ایران کے اس وقت کے صدر محمد خاتمی نے کہا تھا کہ ان کا ملک اب رشدی کے قتل کی حمایت نہیں کرتا۔ لیکن یہ فتویٰ باضابطہ طور پر واپس نہیں لیا گیا ہے۔
ایران کے موجودہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے حوالے سے چند سال پہلے کہا گیا تھا کہ رشدی کے قتل کا فتویٰ “اس گولی کی طرح ہے جو اس وقت تک آرام نہیں کرے گی جب تک وہ اپنے ہدف کو نہ لگ جائے”۔
رشدی پر حملہ کرنے والا ہادی مطر کون ہے؟
چوبیس سالہ مطر نیو یارک کی پڑوسی ریاست نیو جرسی کے شہر فیئر ویو کا رہائشی ہے۔ یارون کے میئر علی تحفی نے ایسوسی ایٹڈ پریس اور رائٹرز کو بتایا کہ مطر امریکہ میں لبنانی والدین کے ہاں پیدا ہوا، جنہوں نے جنوبی لبنان کے یارون سے ہجرت کی تھی۔
این بی سی نیوز کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے مطر کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شیعہ فرقے سے تعلق رکھتا ہے اور ایرانی پاسدارانِ انقلاب (IRGC) سے متاثر تھا، جو ملک کی حفاظت کے لیے پرعزم ایرانی مسلح افواج کی نظریاتی طور پر چلنے والی شاخ ہے۔
این بی سی نیوز کی رپورٹ کے مطابق افسران کو مطر کے ایک سیل فون میسجنگ ایپ پر ایرانی پاسداران انقلاب کے ایک ونگ القدس فورس کے سابق سربراہ قاسم سلیمانی کی تصاویر ملی ہیں، جنہیں امریکہ نے بغداد میں جنوری 2020 میں قتل کر دیا تھا۔
لیکن مطر نے رشدی پر حملہ کیوں کیا؟
امریکی وفاقی تحقیقاتی ادارے “فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن” (ایف بی آئی) اور دیگر ملکی تحقیقاتی ایجنسیوں نے ابھی تک مطر کے مقصد کے بارے میں کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ مطر خود ایرانی نژاد ہے یا یہ صرف اس کی قومیت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: متنازع مصنف سلمان رشدی کے کیریئرمیں کب کیا ہوا؟
سی بی ایس نیوز نے نیو یارک اسٹیٹ پولیس کے میجر یوجین اسٹینزوزکی کے حوالے سے بتایا کہ مشتبہ شخص کے پاس بھی دوسرے ممبروں کی طرح چوٹاکوا انسٹی ٹیوشن میں ایونٹ گراؤنڈ کا پاس تھا۔
مطر، رشدی کے خلاف قتل کا فتویٰ جاری ہونے کے تقریباً ایک دہائی بعد پیدا ہوا اور خود آیت اللہ خمینی کا بھی انتقال ہو چکا ہے۔ تاہم، مطر کے سیل فون میں جو ثبوت اسے پاسداران انقلاب سے جوڑتے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ شاید وہ فتوے کے زیرِ اثر کارفرما تھا۔
“شیطانی آیات” پر 1988 میں ایران میں پابندی لگائی گئی تھی۔
کتاب کے متنازع اقتباسات سے بہت سے مسلمان بدستور ناراض ہیں، اور وقتاً فوقتاً رشدی کو قتل کرنے پر انعامات کا اعلان کیا جاتا رہا ہے، مصنف کو کئی دہائیوں سے جان سے مارنے کی دھمکیوں کا سامنا ہے۔
ایران کے حمایت یافتہ لبنانی مسلح گروپ حزب اللہ کے ایک اہلکار نے ہفتہ (13 اگست) کو رائٹرز کو بتایا کہ گروپ کے پاس رشدی پر حملے کے بارے میں کوئی اضافی معلومات نہیں ہیں۔اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر رائٹرز کو بتایا کہ “ہم اس موضوع کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، لہذا ہم کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔”
روئٹرز کی رپورٹ میں یارون کے میئر علی تحفی کے حوالے سے بھی کہا گیا ہے کہ ان کے پاس اس بارے میں “بالکل کوئی معلومات نہیں ہیں” کہ آیا مطر یا اس کے والدین حزب اللہ سے وابستہ تھے یا ان کی حمایت کرتے تھے۔