چیف جسٹس عمرعطا ءبندیال نے نیب ترامیم سے متعلق کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ انتخابات خود احتساب کا ایک ذریعہ ہیں، انتخابات ایک سیاسی احتساب ہوتا ہے جہاں ووٹر اپنے نمائندوں کا احتساب کرتا ہے، کیس کا فیصلہ کرنے میں کوئی عجلت نہیں کریں گے، نیب قانون میں کی گئی ترامیم اچھی بھی ہے، ملکی معیشت کی حالت دیکھیں کیا ہوگئی ہے۔
چیف جسٹس عمرعطاءبندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3رکنی بینچ نے نیب قانون میں ترمیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بھی بینچ کا حصہ تھے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا گزشتہ روز کوئی مزید ترمیم کی گئی،جس پر درخواست گزارکےوکیل خواجہ حارث نے تصدیق کی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ ان ترامیم سے متعلق مزید تفصیل جمع کرائیں،شاہد پہلے 5ملین والی بات نہیں تھی لیکن اب شامل کی جاچکی ہے؟ کیا یہ ترامیم جو کی گئی ہیں وہ صدر مملکت کے پاس منظوری کے لیے بھیجی گئی ہیں؟۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ اس سماعت میں آپ کو ہم مزید وقت دیں گے ،دوسری طرف سے بھی عدالت کو بہتر معاونت ملے گی،ایک تفصیلی تحریری معروضات جمع کرائیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ نیب قانون میں کل ہونے والی ترامیم بھی چیلنج کریں گے، یہ ترامیم آئین کے سائلینٹ فیچر کی انکروچمنٹ ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ اسلامک پوائنٹ آف ویو بھی دیکھنا ہوگا،نیب کا پراسیکیوٹر جنرل ہے۔ وہ دلائل دیں تو مناسب نہ ہوگا۔
وکیل درخواست گزارکا کہنا تھا کہ عدالت آئینی ترمیم کو بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہونے پر کالعدم کر سکتی ہے۔
جس پر جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ آزاد عدلیہ آئین کے بنیادی ڈھانچے میں شامل ہے،نیب ترامیم سے عدلیہ کا کونسا اختیار کم کیا گیا، یہاں مقدمہ قانون میں متعارف ترامیم کا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ کیا احتساب پارلیمانی جمہوریت کا حصہ ہے، آپ کا موقف ہے نیب ترامیم سے احتساب کے اختیارات کو کم کردیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ کیا آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس احتساب کیلئے ضروری ہے؟چھوٹی چھوٹی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں لوگ ایک 2پلاٹوں کے کیس میں گرفتار ہوئے ، پہلے ہر مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں جاتا تھا، سپریم کورٹ نے فیصلہ دے کر انسداد دہشت گردی عدالت سے بوجھ کم کیا۔
جسٹس منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ کوئی منصوبہ ناکام ہونے پر مجاز افسران گرفتار ہوجاتے تھے، گرفتاریاں ہوتی رہیں تو کون سا افسر ملک کے لیے کوئی فیصلہ کرے گا، نیب ترامیم کے بعد فیصلہ سازی پر گرفتاری نہیں ہو سکتی، نیب ترامیم سے کوئی جرم بھی ختم نہیں ہوا، ترامیم کسی آئینی شق سے متاثر نظر نہیں آ رہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ سال 2022 میں ہونے والی ترامیم کا اطلاق 1985 سے کیا گیا،ماضی سے اطلاق ہوا تو سزائیں بھی ختم ہوں گی اور جرمانے بھی واپس ہوں گے،اس طرح تو پلی بارگین کی رقم بھیواپس کرنا پڑیں گی،کیا پارلیمان اپنے یا مخصوص افراد کے فائدے کیلئے قانون سازی کر سکتی ہے؟ ۔
بعدازاں عدالت نے نیب قانون میں ترمیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت 19 اگست تک ملتوی کردی۔