بھارت کے صوبہ بہارسے تعلق رکھنے والے 62 سالہ دھرم دیو رام آج کل ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں جس کی وجہ انتہائی دلچسپ ہے۔
اپنے آبائی گاؤں بیکنتھ پور میں قابل احترام سمجھے جانے والے دھرم دیو سے متعلق ہرکوئی یہ بات جانتا ہے کہ انہوں نے گزرے 22 سال میں ایک دفعہ بھی غسل نہیں کیا لیکن اس کے باوجود کوئی ان سے نفرت یا انہیں ناپسند نہیں کرتا۔
وجہ یہ ہے کہ دھرم نے خواتین کے خلاف تشدد، مردوں کے درمیان زمینی تنازعات اور معصوم جانوروں کا قتل بند ہونے تک نہ نہانے کا عہد کررکھا ہے اور اپنی اس “منت” کو 2000 سے اب تک ہرحال میں برقرار رکھتے ہیں۔
دھرم نے ای ٹی وی کو بتایا کہ ،“میں 1975 میں جگدل، بنگال میں ایک فیکٹری میں کام کرتا تھا، 1978 میں شادی کی اورعام زندگی گزار نے لگا لیکن 1987 میں اچانک محسوس کیا کہ زمینی تنازعات، جانوروں کے قتل اور خواتین کے خلاف مظالم بڑھنے لگے ہیں۔ لہٰذا وجہ کی کھوج میں ایک ‘گرو’ سے رابطہ کیا جس نے مجھے اپنا شاگرد بنا لیا اور عقیدت کے راستے پر چلنے کی ترغیب دی۔ تب سے میں نے عقیدت کا راستہ اپناتے ہوئے پربھگوان رام کے لیے گیان کرنا شروع کر دیا۔
مذکورہ بالانا انصافیوں کے خاتمے تک نہانے سے پرہیز کا عہد کرنے والے دھرم نے فیکٹری کی نوکری چھوڑ دی تھی لیکن اپنے خاندان کے دباؤ کی وجہ سے جلد ہی کام پرواپس ہولیے لیکن جب اس “غیرمعمولی عہد “ سے متعلق خبریں پھیلیں تو انہیں ملازمت سے برخاست کردیا گیا اور جب سے اب تک وہ بے روزگار ہیں۔
رام کی بیوی مایا دیوی 2003 میں انتقال کرگئی تھیں، برسوں بعد ان کا ایک بیٹا بھی چل بسا لیکن دھرم نے اپنا عہد نہ توڑا ، حال ہی میں انکا دوسرا بیٹا بھی انتقال کرگیا۔ دھرم اپنے اس “عظیم مقصد” میں کامیابی تک نہانے کو تیار نہیں
خواتین اور جانوروں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے دھرم دیو رام کی یہ غیرمعمولی کوشش حال ہی میں بھارت میں خاصی وائرل ہوئی اور میڈیا نمائندوں کو بھی تجسس میں ڈال دیا جنہوں نے بہار کے گوپال گنج ضلع کے بیکنتھ پور کا سفر کرکےدھرم دیورام سمیت متعدد مقامی لوگوں کا انٹرویو کیاسبھی نے اس بات کی تصدیق کی کہ دھرم نے 2 دو دہائیوں سے زائد عرصے غسل نہیں کیا۔
اگرآپ کو لگتا ہے کہ اتنے طویل عرصےتک نہ نہانے والے دھرم دیو رام بہت گندے ہیں تو پھر آپ 87 سالہ ایرانی شخص سے متعلق نہیں جانتے ہوں گے جس نے گزشتہ 67 سال سے غسل نہیں کیا۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دھرم دیو کو دیکھ کریہ انداز نہیں ہوتا کہ وہ “حفظان صحت” کے اصولوں سے اتنی دور ہیں۔