الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس میں عمران خان کے بیان حلفی کو غلط قراردیتے ہوئے شوکاز نوٹس جاری کردیا۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے 3 رکنی بینچ نے ‘متفقہ’ فیصلے میں کہا کہ پاکستان تحریک انصاف پرممنوعہ فنڈز لینا ثابت ہوگیا ہے۔
چیف الیکشن کمشنرنے کہا کہ کمیشن اس بات پرمطمئن ہے کہ تحریک انصاف نےممنوعہ فنڈنگ حاصل کی۔
الیکشن کمیشن نے68 صفحات پر مبنی فیصلے میں قراردیا کہ پی ٹی آئی نے امریکا سے ایل ایل سی فنڈنگ لی ہے۔ عمران خان نےالیکشن کمیشن میں غلط بیان حلفی جمع کرایا،چیئرمین پی ٹی آئی نے2008سے2013 تک غلط ڈیکلیریشن دیے۔ پارٹی نے 34 غیرملکیوں اور عارف نقوی سے فنڈزلیے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی نے کیس کے آغازمیں 8 اکاؤنٹس کی تصدیق کی اور 13 کوپوشیدہ رکھا۔ پی ٹی آئی نے 34 غیرملکیوں سے فنڈزلیے, ابراج گروپ،آئی پی آئی اور یوایس آئی سےفنڈنگ لی۔
الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کوووڈن کرکٹ سے ملنے والی فنڈنگ بھی ممنوعہ قرار دی جس کا انکشاف 29 جولائی کو برطانوی جریدے فنانشل ٹائمزکی رپورٹ میں کیا گیا تھا۔
پی ٹی آئی کو امریکا،کینیڈا، رومیتا شیٹی سمیت 34غیرملکی شہریوں سے ملنے والی فنڈنگ کے علاوہ 351 غیرملکی کمپنیزسےملنےوالی فنڈنگ بھی غیرقانونی قراردیتے ہوئے کہا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے فنڈنگ درست ہونےکے سرٹیفکیٹ غلط تھا
الیکشن کمیشن نےپی ٹی آئی کوشوکازنوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ کیوں نہ پی ٹی آئی کے فنڈز ضبط کرلئےجائیں، بینک اکاونٹس چھپانا آرٹیکل 17کی خلاف ورزی ہے-
الیکشن کمیشن نے قانون کے مطابق اقدامات کرنے کا حکم دیتے ہوئے فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے کی کاپی وفاقی حکومت کو بھی بھجوانے کی ہدایت کی۔
فیصلہ الیکشن کمشنر آف پاکستان سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کے 3 رکنی کے دیگر2ارکان میں نثار احمد درانی اور شاہ محمد جتوئی شامل ہیں۔
چیف الیکشن کمشنرسکندرسلطان راجا کی سربراہی میں یہ فیصلہ 21 جون 2022 کو محفوظ کیا گیا تھا۔
فارن فنڈنگ کیس کیا ہے؟
پاکستان تحریک انصاف کے بانی ارکان میں شمارکیے جانے والے اکبرایس بابر نے پارٹی کی غیر ملکی فنڈنگ کے حوالے سے الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی تھی۔ یہ کیس الیکشن کمیشن آف پاکستان میں 7 سال 7 ماہ سے زائد زیر سماعت رہا۔
اکبر ایس بابر کے مطابق انہوں نے ممنوعہ ذرائع سے پارٹی کو ملنے والے فنڈز کا معاملہ سب سے پہلے پارٹی چیئرمین عمران خان کے سامنے سن 2011 میں اٹھایاتھا۔
بعد ازاں اکبر ایس بابر 14 نومبر 2014 کو یہ کیس الیکشن کمیشن آف پاکستان لے کرگئے اوربتایا کہ پی ٹی آئی نے 2009 سے 2013 کے درمیان 12 ممالک سے 73 لاکھ امریکی ڈالرسے زائد فنڈز اکٹھے کیے ۔
انہوں نے کہا کہ بیرون ملک سے ممنوعہ ذرائع سے حاصل کیے جانے والے فنڈز کے لاکھوں ڈالرز بذریعہ آف شور کمپنیز پارٹی کے بینک اکاؤنٹس میں منتقل کیے گئے ان بھاری رقوم کے اصل ذرائع کا کسی کو علم نہیں۔
درخواست کا متن کیا تھا؟
پی ٹی آئی کے بانی رکن کی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ پی ٹی آئی کو جن ممالک سے ممنوعہ فنڈنگ ہوئی ان میں ڈنمارک، ناروے، جرمنی ، سوئٹزر لینڈ،سوئیڈن ، سنگا پور، نیوزی لینڈ، ہانگ کانگ ، فن لینڈ، آسٹریا،متحدہ عرب امارات، اور سعودی عرب شامل ہیں۔
ان ممالک سے لاکھوں ڈالرزآئے مگر ذرائع نہیں بتائے گئے، بھارتی، اسرائیلی اور امریکی شہریوں سمیت 90 کے قریب غیرملکیوں اور 200 سے زائد غیرملکی کمپنیوں نے بھی پاکستان تحریک انصاف کو فنڈز دیے۔
کیس میں کب کیا ہوا؟
اس دوران پی ٹی آئی نے اکتوبر 2015 میں کیس کی سماعت رکوانے کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی جسے طویل سماعتوں کے بعد فرروی 2017 میں مسترد کردیا گیا۔ کیس کی سماعت کے دوران 9 وکلاء تبدیل کیے گئے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے بینک اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کے لیے مارچ 2018 میں اسکروٹنی کمیٹی قائم کی گئی الیکشن کمیشن کے ڈائریکٹرجنرل لاء کی سربراہی میں 3 رکنی اسکروٹنی کمیٹی تشکیل دی تھی جس کے دیگر2 ارکان میں آڈیٹرجنرل آف پاکستان اور وزارت خزانہ کا نمائندہ شامل تھے۔
کمیٹی نے 95 اجلاسوں کے بعد اگست 2020 میں اپنی رپورٹ جمع کرائی جسےمسترد کردیاگیا، کمیٹی نے جنوری 2022 میں حتمی رپورٹ جمع کروائی۔
اس دوران پی ٹی آئی نے قائم کی جانے والی خصوصی اسکروٹنی کمیٹی قائم کے خلاف بھی عدالت سے رجوع کیا تاہم یہ درخواست بھی مسترد کردی گئی۔
پی ٹی آئی نے 53 اکاؤنٹس چھپائے
حتمی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے 65 بینک اکاؤنٹس میں سے الیکشن کمیشن کو صرف 12 کے بارے میں آگاہ کیا گیا اورمبینہ طور پر 53 اکاؤنٹس چھپائے گئے۔
اسکروٹنی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہاکہ پی ٹی آئی نے بینک اکاؤنٹس اورمتعلقہ تفصیلات الیکشن کمیشن سے چھپانے کے علاوہ پارٹی کو ملنے والے عطیات سے متعلق بھی غلط معلومات فراہم کیں، پارٹی کے بینک کھاتوں کی تفصیلات میں شامل رسیدیں بینک اسٹیٹمنٹ سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
فیصلہ محفوظ
الیکشن کمیشن نے 21 جون 2022 کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، اس دوران مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) کی جانب سے بارہا کیس کا فیصلہ جلد ازجلد سنانے کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔
اس موقع پر چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ معاملہ قومی مفادکاہے،جمہوریت کی مضبوطی اور ووٹرزکااعتماد بحال کرنا ضروری ہے، اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ سب کے ساتھ انصاف ہو۔
فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے سے قبل فنانشل ٹائمز کی تہلکہ خیز رپورٹ
برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے 29 جولائی کو شائع رپورٹ میں بتایا گیا کہ ابراج گروپ کے بانی عارف نقوی نے برطانیہ میں صاحب حیثیت لوگوں سے ’ چیریٹی فندز“ کے نام پر رقم جمع کرکے پی ٹی آئی کے بینک اکاؤنٹس میں جمع کرائی۔
اکبرایس بابرکی پارٹی سے بےدخلی
فارن فنڈنگ کے معاملے میں پارٹی سے اختلاف کرنے پراکبر ایس بابر کو پارٹی سے نکال دیا گیا تھا، پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ جب فنڈنگ لی گئی تو اس وقت یہ فنڈنگ ممنوعہ نہیں تھی ۔