Aaj Logo

شائع 01 اگست 2022 09:30pm

مریخ کے انسانوں کو دئیے گئے 8 بڑے دھوکے

انسان صدیوں سے مریخ میں دلچسپی لیتے آرہے ہیں، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین کے علاوہ مریخ نظام شمسی میں تقریباً قابلِ رہائش سیارہ ہے، یا شاید کافی قریب ہونے کی وجہ سے اسے اچھی طرح سے دیکھا جا سکتا ہے۔

لیکن اسی قربت نے کئی وہمات، افواہوں اور سازشوں کو بھی جنم دیا، اور کئی لوگوں نے مریخ کی سطح پر عجیب و غریب چیزیں دیکھنے کا دعویٰ کیا۔

بہر حال، اس سیارے نے زمین کے باسیوں کو اپنی عجیب چٹانی سطح سے کئی بار بے وقوف بنایا۔لوگوں نے مختلف اوقات میں سرخ سیارے کی سطح پر نہروں اور خوفناک انسانی چہروں سے لے کر خلائی مخلوق کے اڈوں تک بہت کچھ تلاش کرنے کا دعویٰ کیا۔

اس وسیع کائنات میں، کیا ہم انسان صرف اسی سیارے پر بسے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ روابط بڑھانے کے لیے بے چین ہیں؟

مریخ سے جڑی افواہوں اور بصری فریبوں کی طویل تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ یقینی طور پر ایسا ہی لگتا ہے۔

خشکی اور سمندر

1784 میں ایک مشہور برطانوی ماہر فلکیات سر ولیم ہرشل نے لکھا کہ مریخ پر موجود گہرے رنگ کے علاقے سمندر تھے اور ہلکے رنگ والے علاقے زمین تھے۔

انہوں نے قیاس کیا کہ مریخ پر ذہین مخلوق آباد ہے جو ناسا کے مطابق “شاید ہماری ہی طرح اس صورتِ حال سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔”

ہرشل کا نظریہ ایک صدی تک غالب رہا، دوسرے ماہرین فلکیات نے یہ دعویٰ کیا کہ پودوں کو بھی ہلکے رنگ کے علاقوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔

نالیاں اور نہر

1877 میں مریخ جب زمین کے قریب پہنچا تو اطالوی ماہر فلکیات جیووانی شیاپریلی نے اپنی دوربین سے سرخ سیارے کی سطح پر کچھ نالیوں کا مشاہدہ کیا۔

انہوں نے ان نالیوں کے لیے جو اطالوی لفظ استعمال کیا وہ “کینالی” یعنی چینلز تھا، جس کا ترجمہ انگریزی میں “نہروں” میں کیا گیا، جس سے انگریزی بولنے والی دنیا میں بہت سے لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مریخ پر ذہین مخلوق آباد تھی جس نے آبی گزرگاہوں کا نظام ترتیب دیا۔

اس غلط فہمی کو پرسیول لوول نامی ایک ماہر فلکیات نے مشہور کیا، جس نے 1895 میں “مریخ” کے عنوان سے ایک کتاب میں نہروں کی ڈرائنگ پیش کیں اور 1908 میں ایک دوسری کتاب “مریخ بطور زندگی” میں اپنے مکمل نظریہ پر بحث کی۔

اس نظریہ کو 20ویں صدی کے اوائل میں رد کر دیا گیا تھا، جب یہ اعلان کیا گیا کہ “نہریں” محض بصری وہم ہیں۔ ناقص معیار کی دوربینوں کے ذریعے دیکھا جائے تو مریخ کے پہاڑوں اور گڑھوں جیسی نکتہ نما خصوصیات، سیدھے ایک دوسرے سے جڑی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔

چہرہ

یہ سب کچھ 1976 میں شروع ہوا، جب ناسا نے مریخ پر ایک پہاڑ کی دلچسپ تصویر جاری کی، جسے “وائکنگ 1” خلائی جہاز نے عکس بند کیا تھا۔

تصویر میں آنکھیں اور نتھنے واضح دیکھے جاسکتے تھے۔

حا؛لانکہ یہ ایک پہاڑ کی تصویر تھی، لیکن 30 سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی “مریخ پر موجود چہرہ” اب بھی خرافات اور سازشی نظریات رکھنے والوں کو متاثر کرتا ہے۔

بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ ایک مصنوعی ڈھانچہ ہے جسے مریخ کی قدیم تہذیب نے بنایا تھا۔

اوپر سے دیکھنے پر پہاڑ کا سایہ واقعی اسے ایک چہرے کی طرح دکھاتا ہے۔

تاہم، مارس ایکسپریس آربیٹر اور دوسرے خلائی جہاز کے ذریعے لی گئی تصاویر میں دیکھا گیا ہے کہ دیگر زاویوں سے پہاڑ واضح طور پر الگ ہے، اور بالکل بھی چہرے جیسا نہیں لگتا۔

پیریڈولیا مختلف چیزوں میں چہروں (یا دیگر اہم اشیاء) کو دیکھنے کی سائنسی اصطلاح ہے۔

2001 : مریخ کے درخت

2001 میں، اپنی موت سے سات سال پہلے مشہور سائنس فکشن مصنف آرتھر سی کلارک، “2001: اے اسپیس اوڈیسی” کے شریک تخلیق کار نے اعلان کیا کہ انہوں نے اس وقت چکر لگانے والے مریخ کے عالمی سرویئر کی جانب سے مریخ کی لی گئی نئی تصاویر میں درختوں سمیت پودوں کے جھنڈ دیکھے ہیں۔

کلارک نے اس وقت اسمتھ سونین کے نیشنل ایئر اینڈ اسپیس میوزیم میں ورنر وون براؤن میموریل لیکچر سیریز کے دوران فون کے ذریعے بات کرتے ہوئے کہا کہ، “مریخ کی ان نئی تصاویر کو اچھی طرح سے دیکھیں، موسموں کے ساتھ بہت کچھ بدل رہا ہے اور حرکت کر رہا ہے، جو ممکنہ طور پر نباتات ہو سکتی ہے۔ “

انہوں نے مزید کہا کہ، “جہاں نباتات ہیں، آپ شرط لگا سکتے ہیں کہ ہمیں وہاں کچھ مریخی مخلوقات بھی ملیں گی۔”

کلارک نے جن شاخوں کو مریخ کی سطح پر دیکھا وہ وہی ہیں جنہیں مریخ کے ماہرین ارضیات “مکڑیاں” کہتے ہیں۔

یہ لکیریں شاخوں کی طرح نظر آتی ہیں، اور موسم کے ساتھ تبدیل ہوتی ہیں، یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی برفیلی چٹانوں کے پگھلنے کی وجہ سے بنتی ہیں، جب کاربن ڈائی آکسائیڈ آئس سبلیمیٹ گیس میں بدل جاتا ہے تو یہ ان راستوں پر بہتا ہے جو شاخوں کی طرح نظر آتے ہیں۔

مریخ پر موجود شخص

2007 میں، مریخ کے روور “اسپرٹ” نے سرخ سیارے کا کافی حد تک نظارہ کیا، اور وہاں ایک ایسی شبیہ بھی دیکھی جس میں ایک شخص کو انسانی لباس پہنے عبادت کی حالت میں گھٹنے ٹیکے دیکھا جاسکتا ہے۔

اسپرٹ نے “ہوم پلیٹ” نامی سطح مرتفع کا ایک خوبصورت نظارہ حاصل کیا، جو کولمبیا ہلز کی حدود کے اندرونی بیسن میں گسیو کریٹر کے اندر واقع ہے۔

بلاشبہ، تصویر میں موجود “انسان” محض ایک چٹان ہے، جس نے پیریڈولیا کی وجہ سے ہمارے دماغوں میں انسانی شکل اختیار کرلی۔

گاندھی کا چہرہ

1976 مریخ پر دھنے والے چہروں کا آغاز تھا۔ 2009 میں “گوگل مارس” کے آغاز کے ساتھ ہی لوگوں نے مریخ پر دلچسپ ٹکڑوں اور اشکال کی تلاش شروع کردی۔

“ گوگل مارس“ سیارے کی مرتب کردہ سیٹلائٹ تصاویر سے تیار کردہ ایک نقشہ پیش کرتا ہے، جس سے صارفین سرخ سیارے کی سطح کا نظارہ کر سکتے ہیں۔

ایسی ہی ایک شکل میٹیو ایانیو نامی ایک اطالوی شخص نے دریافت کی جو مہاتما گاندھی جیسی دکھتی تھی۔

اس ہائی ریزولیوشن تصویر میں شکل کسی پہاڑ یا چٹآن نہیں بلکہ ایک گڑھے میں دیکھی گئی۔

بالوں والی نیلی مکڑی

2019 میں یورپی اسپیس ایجنسی (ESA) کی جانب سے لی گئی تصاویر میں ایسا لگتا ہے کہ ایک بہت بڑی بالوں والی مکڑی اپنی ٹانگیں مریخ کے ایک پہاڑ پر پھیلائے بیٹھی ہے۔

لیکن حقیقت میں یہ دبیز “ٹانگیں” دراصل سینکڑوں چھوٹے بگولوں، یا دھول کے طوفانوں کے راستے ہیں۔

یہ واضح نہیں ہے کہ یہ پہاڑ اس طرح کے طوفان کا ہاٹ سپاٹ کیوں ہے، لیکن ای ایس اے کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جس طرح سے ہوا کا حجم خطے کے گرد گھومتا ہے وہ دھول کے بگولوں کی تشکیل کے لیے سازگار ہو سکتا ہے۔

عجیب سبز چٹان

مریخ، جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ایک سرخ سیارہ ہے۔ تو پریسوروینس روور کے ذریعہ دریافت کردہ یہ عجیب و غریب چٹان سبز کیوں ہے؟

طاہر ہے ہر کوئی جاننا چاہے گا۔ روور کی پبلک ریلیشنز ٹیم کی طرف سے 31 مارچ کو پوسٹ کی گئی ایک ٹویٹ میں حیرت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا گیا، “کیا مریخ کا یہ ٹکڑا دور دراز خلا سے اس علاقے میں گرا ہے؟ کیا یہ شہابِ ثاقب ہے یا کچھ اور؟”

یہ چٹان تقریباً 6 انچ (15 سینٹی میٹر) لمبی ہے اور روور کے لینڈنگ سائٹ کے قریب مریخ کے جیزیرو کریٹر میں پڑی ہے۔

روور نے چٹان کے ایک حصے کو لیزر کے زریعے بخارات میں تبدیل کیا تاکہ روور کے کیمروں اور سپیکٹرو میٹرز سے بخارات کے بادل کا تجزیہ کیا جائے اور اس کی کیمیائی ساخت کو ظاہر کیا جا سکے۔ شاید اس اسرار کا جواب جلد ہی مل جائے گا۔

Read Comments