کراچی کی مقامی عدالت نے دعا زہرا کا دوبارہ طبی معائنہ کرانے کی استدعا مسترد کردی۔
کراچی کی مقامی عدالت میں دعا زہرا کیس کی سماعت ہوئی، درخواست تفتیشی افسر کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔
تفتیشی افسرنے چالان پیش کرنے کی مہلت طلب کی جس پر عدالت نے چالان 6 اگست تک پیش کرنے کی مہلت دے دی۔
بعدازاں کراچی کی مقامی عدالت نے دعا زہرا کیس کی سماعت 6 اگست تک ملتوی کردی۔
دعا زہرا کیس: ظہیرکی فیملی کے بینک اکاؤنٹس بحال کرنے کا حکم
29 جولائی بروز جمعے کو دعا زہراکیس کی ہونے والی سماعت میں سندھ ہائیکورٹ نے ظہیر احمد کے بھائی شبیر احمد سمیت اہل خانہ کے بینک اکاؤنٹس بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔
جسٹس اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے اسٹیٹ بینک اور سینٹرل انویسٹی گیٹو ایجنسی (سی آئی اے) کو حکم امتناع جاری کرنے کا حکم جاری بھی دیا تھا۔
ظہیر اور اس کے اہل خانہ نے گزشتہ جمعے کو اپنے بینک اکاؤنٹس اور کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (سی این آئی سی)کی بحالی کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔
عدالت نے دعا زہرہ کی عدم بازیابی پر حکام کو ملزمان کے شناختی کارڈ اور بینک اکاؤنٹس بلاک کرنے کا حکم دیا تھا۔
دعازہرا کو شیلٹر ہوم کراچی منتقل کرنے کی اجازت
21 جولائی کو جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں سندھ ہائیکورٹ کے 2 رکنی بینچ نےدعا زہرا بازیابی کیس کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے دعا زہرا کو شیلٹرہوم کراچی منتقل کرنے کی اجازت دی تھی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ دعا زہرا کو کراچی منتقل کرنے میں قانونی رکاوٹ نہیں، کیس کراچی کی ٹرائل کورٹ میں زیر التوا ہے، اغوا سے متعلق ٹرائل کورٹ ہی حتمی فیصلہ کرے گی۔
عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ دعازہرا کیس کا مرکزی کردار ہے اس کی کراچی میں موجودگی ضروری ہے، بظاہر دعا زہرا شوہرکے ساتھ ناخوش اور ساتھ رہنا نہیں چاہتی، دعا زہرا والدین سے بھی خوفزدہ ہے، شیلٹر ہوم میں رہنا مناسب ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے استفسار کیا تھا کہ کیا لڑکی اس وقت دارالامان میں ہے؟
جس پر درخواست گزار کے وکیل نے جواب دیا تھا کہ جی دعا اس وقت لاہور کے شیلٹر ہوم میں ہے۔
دعا زہرا کے والد مہدی کاظمی کے وکیل جبران ناصر ایڈووکیٹ نے لاہور کے مجسٹریٹ کے سامنے دی گئی درخواست عدالت کے سامنے پڑھ کر سنائی تھی۔
ایڈووکیٹ جبران ناصر نے کراچی کی ٹرائل کورٹ میں پیش کی گئی پولیس رپورٹ بھی عدالت کو پڑھ کر سنائی تھی ۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا تھا کہ پولیس نے اعتراف کیا تھا، دعا زہرا کے اغوا کے وقت ظہیر کراچی میں موجود تھا، لڑکی نے والدین سے نہیں بلکہ شوہر سے جان کو خطرے کے خدشے کا اظہار کیا تھا۔
جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے کہا تھا کہ ہم نے تفتیشی افسر کو سننا ہے، جس پر ڈی ایس پی شوکت شاہانی نے کہا تھا کہ میں سابق تفتیشی افسر ہوں۔
جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کا کہنا تھا کہ لڑکی کو تو ہر صورت کراچی لانا ہے، جرم کراچی میں ہوا ہے توکیس کی سماعت بھی کراچی میں ہوگی، کیس اسی شہر میں زیر التواہے۔
جسٹس محمد اقبال کلہوڑونے مزید کہا تھا کہ کراچی میں بھی شیلٹر ہوم ہیں، کراچی میں بھی لڑکی کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا، کراچی کے شیلٹر ہوم میں بھی حفاظتی انتظامات کیے گئے ہوں گے، اس لیے کیس کراچی میں ہے تو لڑکی کو بھی کراچی لانا ہوگا جبکہ لڑکی کے والدین بھی کراچی میں رہتے ہیں۔
عدالت نے ملزم ظہیر کے وکیل سے مکالمہ کیا تھا کہ آپ چاہتے ہیں لڑکی کو کراچی منتقل نہ کیا جائے؟اس پر ملزم کے وکیل نے کہا تھا کہ لڑکی کو کراچی منتقل نہیں کیا جاسکتا، لڑکی اگر کسی سے نہ ملنا چاہے تو بھی کوئی اس سے نہیں مل سکتا، عدالت بھی چاہے تو لڑکی سے ملنے کا نہیں کہہ سکتی۔
عدالت کا کہنا تھا کہ لڑکی کم عمر ثابت ہوچکی ہے، اس کے بیان کی کوئی اہمیت نہیں، ہم لڑکی کی کسٹڈی والدین کے حوالے کرنے کا حکم نہیں دے رہے، ہم چاہتے ہیں جہاں کیس زیر التوا ہے لڑکی کو وہیں کے شیلٹر ہوم میں رکھا جائے۔
ملزم کے وکیل نے کہا تھا کہ ملزم ظہیر کے بینک اکاونٹس اور شناختی کارڈز بلاک کر دیے ہیں ، جس پر عدالت نے پوچھا تھا کہ کتنے اکاؤنٹس منجمد کیے گئے ہیں؟
ملزم ظہیر کے وکیل نے بتایا تھا کہ ظہیر اور اس کے بھائیوں کے 4 بینک اکاؤنٹس منجمد کیے گئے ہیں ،کھولے جائیں۔
عدالت نے ملزم ظہیر کے وکیل کو ہدایت کی تھی کہ اکاؤنٹس کھولنے کے لیے الگ سے درخواست دائر کریں۔
دورانِ سماعت سرکاری وکیل نے کہا تھا کہ کیس کراچی میں زیر سماعت ہے، ریاست کی تحویل میں لڑکی کو کراچی منتقل کیا جائے۔
وفاقی حکومت کے وکیل نے دعا زہرا کو کراچی منتقل کرنے کی حمایت کی تھی، جس پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
کیس کا پس منظر
نوعمر دعا زہرا کی اپریل کے وسط میں کراچی میں اپنے گھر سے لاپتہ ہونے کی اطلاع ملی تھی۔
بعد ازاں دعا زہرا کا سُراغ بہاولنگر سے ملا اور پولیس کو علم ہوا کہ اس کا 21 سالہ ظہیر احمد سے نکاح وچکا ہے، دونوں کی ملاقات مقبول ترین آن لائن گیم پب جی کھیلنے کے دوران ہوئی تھی۔
اس جوڑے کو سندھ ہائیکورٹ میں پیش کیا گیا، جہاں عدالت نےدعا کو شیلٹر ہاؤس بھیجنے سے قبل فیصلہ دیا کہ وہ والدین یا ظہیرمیں سے جس کے ساتھ چاہے رہ سکتی ہے۔جس کے بعد دعا زہرا کے والدین نے سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا۔
بعد ازاں دعا کے والد کی جانب سے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ چیلنج کرنے والی درخواست واپس لینے پر سپریم کورٹ نے کیس نمٹا دیا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مہدی کاظمی کو متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کو کہا تھا۔