Aaj Logo

اپ ڈیٹ 30 جولائ 2022 03:32pm

سام سنگ کو ‘گمراہ کُن اشتہارات’ پر اربوں روپے کا جُرمانہ

جنوبی کورین ٹیکنالوجی کمپنی سام سنگ کو اپنے موبائل فون سے متعلق گمراہ کُن اشتہارات پربھاری جُرمانے کا سامنا کرنا پڑگیا۔

آسٹریلوی فیڈرل کورٹ کے جسٹس برینڈن مرفی نے کمپنی کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے تیارہ کردہ اسمارٹ فونز کے کچھ ماڈلز میں پانی کے خلاف مزاحمت رکھنے سے متعلق غلط دعووں پرمبنی اشتہارات پر 14 ملین آسٹریلوی ڈالرز (9.8 ملین امریکی ڈالرز)بطور جُرمانہ اداکرے۔

پاکستانی روپوں میں یہ رقم 2 ارب 34 کروڑ روپے سے زائد بنتی ہے۔

جسٹس برینڈن نے کمپنی کے ذیلی ادارے سام سنگ الیکٹرانکس آسٹریلیا کو اس جرمانے کی ادائیگی کے لیے 30 دن کی مہلت دی ہے۔

سام سنگ صارفین کے حقوق سے متعلق نگران ادارے آسٹریلوی کمپیٹیشن اینڈ کنزیومر کمیشن کو بھی ایک لاکھ 40 ہزار امریکی ڈالرزادا کرے گی جس نے 4 سال قبل سام سنگ فونزکی تحقیقات کا آغازکیا تھا۔

کمپنی نے 2016 سے 2018 کے عرصے مین گلیکسی سیریزکے 7 ماڈلز سے متعلق 9 اشتہارات میں جھوٹے دعوے کیے جانے کا اعتراف کیا، ان فونز میں S7, S7 edge, A5, A7, S8 , S8 plus, اور NOTE8 شامل ہیں

اشتہارات میں پانی کیخلاف مزاحمت رکھنے کے علاوہ سوئمنگ پولز اورسمندری پانی میں بھی ان فونزکا استعمال موزوں قراردیاگیا۔

جبکہ ان دعوؤں کے برعکس ان ماڈلز کی چارجنگ پورٹس کو نقصان پہنچ سکتا تھااور وہ کام کرنا چھوڑسکتیں تھیں۔

کمپنی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ مسئلہموجودہ فونز میں نہیں ہے، چارجنگ پورٹ کا ایشو صرف انہیں 7 ماڈلز میں ہے جن کی نشاندہی کیس میں کی گئی۔

اگرچہ سام سنگ نے آسٹریلیا میں 31 لاکھ کی تعداد میں یہ فون فروخت کیے تاہم عدالت اس بات کا تعین نہیں کر سکی کہ صارفین کو کتنے فونز کی چارجنگ پورٹس میں خرابیوں کا سامنا کرنا پڑا۔عدالت میں کہا گیا کہ نامعلوم تعداد میں صارفین نے چارجنگ پورٹس مجاز سام سنگ ریپئررز سے تبدیل کروا لی تھیں جن میں کچھ نے تو یہ خدمات بلامعاوضہ سرانجام دیں جبکہ کچھ نے 126 سے لے کر 171 ڈالرز تک لیے۔

جسٹس برینڈن مرفی نے کہا کہ ایسا سوچنا صارفین کا حق ہے کہ سام سنگ جیسی بڑی کمپنی اپنے فونز پرفارمنس کے حوالے سے کوئی غلط دعویٰ یا تشہیرنہیں کرے گی، عین ممکن ہے کہ غلط دعوؤں پر مبنی اشتہاردیکھ کر ہی بیشترصارفین نے یہ فون خریدے ہوں۔

سربراہ آسٹریلوی کمپیٹیشن اینڈ کنزیومر کمیشن جینا کیس گوٹلیب نے کہا کہ انہیں سیکڑوں شکایات موصول ہوئی تھیں۔

Read Comments