کراچی میں گینگ وار کے ہیرو اور ولن مانے جانے والے عُزیربلوچ کی 3 مزید عدالتی مقدمات میں رہائی کے بعد یہ قیاس آرائیاں زور پکڑ رہی ہیں کہ ان کی زندگی جیل کی سلاخوں سے آگے کی جانب بڑھ رہی ہے۔
تقریباً 20 مقدمات میں بریت حاصل کرنے والے عزیربلوچ کو ابھی بہت سا سفر طے کرنا ہے، ان پر کم از کم 59 مقدمات میں فرد جرم عائد کی گئی تھی (کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہے)، جس کا مطلب ہے مزید 40 کیسز، جن میں منشیات کی اسمگلنگ سے لے کر ارادی قتل تک شامل ہیں، تو اب بھی ان کے سرپرتلوار لٹک رہی ہے۔
یہ قانونی کارروائیاں اپریل 2020 میں ایران کے لیے جاسوسی کے الزام میں فوجی عدالت کی جانب سے خفیہ طور پر سنائی جانے والے 12 سالہ سزا سے ہٹ کر ہیں۔
سیاسی پیادہ
عزیر بلوچ جنوری 2016 سے پاکستان میں حکام کی حراست میں ہیں، حالانکہ انہیں پہلی بار 2014 میں گرفتارکیا گیا تھا۔ مقامی میڈیا کے مطابق عزیر کو عمان کے شہر مسقط سے متحدہ عرب امارات جاتے ہوئے انٹرپول نے گرفتار کیا تھا، قریبی افراد کا کہنا ہے کہ مسقط میں عزیر کا ایک گھربھی تھا۔
جنوری 2016 میں پاکستان میں پراسرار طور پر منظرعام پر آنے والے عزیر بلوچ کو فوری طور پر حراست میں لے لیا گیا۔ اس وقت یہ اطلاعات تھیں کہ انہیں ممکنہ طور پر پی پی پی پر دباؤ ڈالنے کے لیے بطور پیادہ استعمال کیا جا سکتا ہے جو اس وقت صوبہ سندھ میں پاکستان رینجرز کے اختیارات کو کم کرنے کے لیے احتجاج کر رہی تھی۔ پیرا ملٹری فورس کو تب سے لے کر اب تک کراچی میں دیے جانے والے ‘خصوصی اختیارات’ میں 90 دن کی توسیع ملتی رہی ہے۔
ایک حیرت انگیز پروان
لیاری کی جرائم کی دنیا میں عزیر کا داخلہ ناگزیر لگتا ہے۔ 45 سالہ نوجوان سنگو لین میں پیدا ہوا تھا جو بلوچ اکثریتی علاقے لیاری کی بے شمار تنگ گلیوں میں سے ایک ہے، اس کے چچا لیاری کے بے تاج بادشاہ رحمان ڈکیت تھے۔
کہانی یہ ہے کہ عزیر، رحمان ڈکیت اور اس کے گروپ میں شامل ہونے کے خلاف تھا۔ 2001 میں 24 سال کی عمر میں عزیر نے عوامی زندگی میں اپنا پہلا قدم رکھتے ہوئے علاقہ ناظم کے لیے الیکشن لڑا لیکن شکست ہوئی، تب ایسا لگتا تھا کہ عزیر کوئی دوسرا راستہ اختیار کرنا چاہتا ہے لیکن 2003 میں رحمان ڈکیت کے حریف گینگ کے ہاتھوں ان کے والد کے قتل نے جرائم کی دنیا کا دروازہ کھول دیا۔ اگرچہ کہانی کے حقائق غیر متنازع ہیں، کچھ لوگوں نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ قتل ہی بنیادی محرک تھا۔
عزیر بلوچ بابا لاڈلا کے ساتھ مل کر رحمان ڈکیت کے ساتھی بن گئے، اس گروپ نے ارشد پپو گروپ کے ساتھ جنگ لڑی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے ایم کیو ایم کی حمایت حاصل تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب ایم کیو ایم کراچی کے زیادہ تر حصے پر قابض تھی اور لیاری اس کے جرائم پیشہ افراد کے قبضے میں تھا۔
اس ساری صورتحال نے عزیر کو پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان سیاسی کشمکش میں ایک اہم کرداربنا دیا، جس نے مبینہ طور پر رحمان ڈکیت گروپ اور ایم کیو ایم کی حمایت کی۔ اس دشمنی نے اکثر نسلی رنگ اختیار کیا اور بلوچ مہاجروں کے خلاف کھڑے ہو گئے۔
سال 2008 میں عوامی امن کمیٹی کی تشکیل نے رحمان ڈکیت کے لیے پی پی پی کی حمایت کو واضح کردیا۔ 2009 میں ایک پولیس مقابلے میں رحمان ڈکیت کی موت کے بعد عزیر کو ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔
یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا تھا جب صوبے اور مرکز میں حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی پر شہر میں دہشت پھیلانے والے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کا دباؤ تھا، جن میں لیاری کے جرائم پیشہ عناصر بھی شامل تھے۔
ذوالفقار مرزا اور عزیر بلوچ
لیکن انہی جرائم پیشہ افراد نے طاقت کے ساتھ پارٹی کو قانونی جواز کی فراہمی یقینی بنائی، انہوں نے بھتہ خوری سے لے کر قتل تک سب کچھ کیا اور اس کے لیے انہیں نوازا گیا۔ پی پی پی رہنما معمول کے مطابق عزیر کی ساکھ کے باوجود ان کے ساتھ تصاویربنواتے رہے۔ عزیر کی ذوالفقار مرزا اور مرحوم رحمان ملک سے باقاعدہ ملاقاتیں ہوتی تھیں، رپورٹس میں بتایا گیا کہ آصف زرداری کی بہن فریال تالپور نے عزیر سے رقم بھی وصول کی۔
کرمنالوجسٹ زوہا وسیم کہتی ہیں، “کراچی جیسے شہر میں، سیاستدان فوائد اٹھانے کے لیے مجرمانہ نیٹ ورکس اور گروہوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ “انہوں نے سیاسی فائدہ اٹھایا ہے۔” زوہا یونیورسٹی آف واروک میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں جن کی کتاب ‘Insecure Guardians: Enforcement, Encounters and Everyday Policing in Post Colonial Karachi’ جلد منظر عام پر آئے گی۔
اس سب میں عزیر نے اپنے آپ کو دورجدید دور کے رابن ہڈ کے طور پر پیش کیا جس نے ناجائز ذرائع سے حاصل شدہ فوائد کا لیاری کے لوگوں کے ساتھ اشتراک کیا۔ علاقے کے لوگوں میں ان کی عزت ومقبولیت ایک ایسے مقام پر پہنچ گئی جہاں وہ اختیارات رکھنے والوں کے لیے ناقابل قبول ہو گیا۔
خود پرحد سے زیادہ فخرواعتماد
اویس مظفر، جو ‘ٹپی’ کے نام سے مشہور ہیں، زرداری کے رضاعی بھائی ہیں جو 2017 کے آس پاس پراسرار طور پراختیارات کم ہونے تک پی پی پی میں اہم شخصیت تھے۔
2012 کے دوران لیاری کے اپنے ایک دورے میں انہوں نے پورے علاقے میں عزیر بلوچ کے پوسٹرز دیکھے۔ ٹپی اس علاقے سے بطور امیدوار پی پی پی کی نشست پر الیکشن لڑنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ عزیر کی مقبولیت انہیں کچھ خاص نہیں بھائی، شاید عزیر کے بجائے زرداری اور ان کی مرحومہ اہلیہ بے نظیر کے پوسٹرز علاقے کی زینت بنائے جاتے۔
فریال تالپور اور عزیر بلوچ
چوہدری اسلم (مرحوم )کو ایک ایسے پولیس افسر کے طورپرجانا جاتا تھاجو اپنی “ خاص کارکردگی “ کے لیے مشہور تھے، انہیں لیاری کو جرائم پیشہ عناصر سے پاک کرنے اور عزیر کی طاقت کے خاتمے کیلئے آپریشن کا کام سونپا گیا تھا۔
آپریشن بری طرح ناکام ہوا، جس کے نتیجے میں پولیس اور گینگسٹرزکو بھاری جانی نقصان پہنچا، عزیر بلوچ گرفتار ہونے سے بچ گئے جس پرپی پی پی کو ملامت کی گئی جب کہ مسلم لیگ (ن)، اور ان کے اس وقت کے حریفوں نے عزیر کی حمایت کی۔
مطلوب مجرم ہونے کے باوجود عزیرناقابل رسائی تھا، یہاں تک کہ کراچی میں اپنے سیاسی ‘گاڈ فادرز’ اور شہر کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طاقت سے انکار نےانہیں ناقابل تسخیر ہونے کی فضا بخشی۔
اگرچہ عزیربلوچ کے گروپ کو اب واضح سیاسی پارٹی کی سرپرستی حاصل نہیں رہی تھی لیکن پھربھی وہ نہ صرف سیاسی جماعتوں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی ایک قیمتی اثاثہ تھے۔
2013 میں عزیر کے حریف ارشد پپو کو قتل کر دیا گیا اور ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں اس کا کٹا ہوا سر فٹ بال کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا، یہ لیاری کے بادشاہ کی طرف سے اپنے بہت سے حریفوں کے لیے ایک سرد اور سنسنی خیز پیغام تھا۔
چند ماہ بعد، لیاری میں باکسنگ میچ کے دوران ایک بم دھماکہ ہوا جہاں عزیر بلوچ کے دوست سے دشمن بن جانے والا بابا لاڈلا موجود تھا، بابا لاڈلا بچ گیا لیکن اس حملے کو عزیر کا ایک اور پیغام سمجھا گیا اور کچھ ہی دیر بعد عزیر کے قریبی دوست اور ساتھی ظفر بلوچ کو قتل کر دیا گیا۔ عزیر کو مبینہ طور پراس کے فوراً بعد انٹرپول نے گرفتار کرلیا تھا۔
ایک کرائم رپورٹرکے مطابق عزیرصرف سیاستدانوں کی تمام تر معلومات رکھنے والا اثاثہ نہیں تھا، لیاری کے گینگسٹرز نے ‘نان سٹیٹ ایکٹرز’ کے خلاف بھی کردار ادا کیا۔
اپنانام ظاہرنہ کرنے والے رپورٹرنے کہا کہ ان مجرموں کو ان علاقوں میں استعمال کیا گیا جہاں ریاست کارروائی نہیں کرسکتی تھی یا اس قابل نہیں تھی۔
مثال کے طور پر اس مسئلے کا ایک ‘رئیل اسٹیٹ’ پہلو ہے۔ مفاد پرست گروہ چاہتے ہیں کہ وہ علاقہ جہاں لیاری واقع ہے بندرگاہ کے قریب ہونے کی وجہ سے اسے ملٹی نیشنلز اور دیگرآرگنائزیشنز کو فروخت کر دیا جائے۔
رپورٹر کا کہنا تھا کہ بندرگاہ کے ذریعے ‘بین الاقوامی کمپنیوں’ کے گودام اور دفاتر جو کچھ بھی آتا ہے اسے افغانستان یا ایران بھیج سکتے ہیں یا اسے ’کم سے کم اسکروٹنی کے ساتھ ’ پاکستان میں استعمال کرسکتے ہیں۔
جے آئی ٹی کی لانڈری لسٹ
2020 میں سندھ حکومت مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی 2016 کی رپورٹ منظرعام پر لائی جس میں کہا گیا تھا کہ عزیر نے 198 افراد کے قتل میں براہ راست یا بالواسطہ ملوث ہونے کااعتراف کیا ہے۔ متاثرین میں حریف گروہوں، سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ، پولیس اور رینجرز سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں، تاجروں، پبلک آفس ہولڈرز اور راہگیروں سمیت دیگر شامل تھے۔
رپورٹ کے مطابق 45 سالہ عزیر بلوچ نے ایران کے لیے جاسوسی کا اعتراف بھی کیا، ایران سے ان کا ایک مضبوط تعلق تھا اور جب بھی انہیں حکام کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تو متحدہ عرب امارات اور مسقط میں اپنی ‘پراپرٹیز’ کی طرف بھاگنے سے پہلے انہیں ایران کا زمینی راستہ استعمال کرنا پڑتا تھا،رپورٹ میں کہا گیا کہ عزیزکے پاس جعلی ایرانی پاسپورٹ بھی تھا۔
رپورٹ میں 54 فرسٹ انفارمیشن رپورٹس (ایف آئی آرز) کی فہرست دی گئی ہے جن میں عزیربلوچ کو نامزد کیا گیا،ان میں سے زیادہ تر لیاری اور ا آس پاس کے پولیس اسٹیشنز میں درج ہیں۔ مزید ایک درجن مقدمات عزیر بلوچ سے وابستہ ‘دہشت گرد گروپوں’ سے متعلق ہیں۔
جے آئی ٹی نے اہم ناموں کی فہرست تشکیل دی جس میں لیاری کے تھانوں کے پولیس افسران کے ساتھ ساتھ سرکاری محکموں کے افسران بھی شامل ہیں جو عزیر کے کہنے پر تعینات کیے گئے تھے۔ رپورٹ میں زمید بتایا گیا ہے کہ اس طرح اس نے بھتہ خوری اور تحفظ کا ریکٹ بنایا جس کے ذریعے بینک اکاؤنٹس اور متحدہ عرب امارات میں ہنڈی ٹو عزیر کے غیر قانونی نظام کے ذریعےاربوں روپے منتقل کیے گئے ۔
عزیربلوچ کے پاس اسٹریٹ پاور تھی جو اس کے ماتحت چلنے والے چھوٹے گروہوں کے ذریعے استعمال کی جاتی تھی تا کہ لوگوں کو دہشت زدہ کر کے ان کے حریفوں کو دور رکھا جا سکے۔ رپورٹ میں استاد تاجو گروپ، احمد علی مگسی، وصی اللہ لاکھو، امین بلیدی، شیراز کامریڈ، جبار لنگڑا سمیت اس طرح کے ایک درجن سے زائد گروپوں کے نام درج ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس گروپ کو ہتھیاروں تک آسانی سے رسائی حاصل تھی اور ان کے ہتھیاروں میں مشین گنیں اور یہاں تک کہ ایک راکٹ لانچر بھی تھا۔
2016 کی پراپرٹی قیمتوں کے مطابق عزیر یا اس کے ساتھیوں کے نام پر تقریباً 250 ملین روپے کی جائیدادیں ہیں۔
مکمل ہونے کے باوجود جے آئی ٹی رپورٹ کی کوئی قانونی اہمیت نہیں ہے، زوہا وسیم نے کہا کہ “ایسی صورت میں ملزمان اپنے بیانات سے پیچھے ہٹ سکتے ہیں، اور کہہ سکتے ہیں کہ بیان زبردستی لیا گیا تھا۔ “
رپورٹ میں عائد کردہ الزامات کو ثابت کرنے کی ذمہ داری پراسیکیوشن اور پولیس پر ہے۔
عزیر بلوچ ایک دہائی میں جیل سے باہر نکل سکتے ہیں لیکن کرائم رپورٹر کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ ایک مشکل سوال ہے لیکن ان کی نظر میں ایک اور سوال زیادہ اہم ہے کہ ، “کیا وہ اس وقت تک زندہ رہیں گے؟ “
شمیل احمد کی معاونت کے ساتھ