موسمیاتی تبدیلیوں نے پاکستان سمیت پوری دنیا کو ہی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جس کے اثرات اب نظرآرہے ہیں۔
حال میں ہونے والی مون سون بارشوں کے اسپیل، شدید گرمی، گلیشیئرز پگھلنے اور ہیٹ ویو کی صورت میں انسانی جانوں کا زیاں موسمیاتی تبدیلی میں سے ایک ہے۔
اگرموسمیاتی تبدیلیاں اسی طرح سے رونما ہوتی رہیں، تو یہ جانداروں کے ساتھ ساتھ انسانی زندگیوں کے لیے بھی کسی خطرے سے کم نہیں ہے۔
سینٹرآف ایکسیلینس ان ڈیزاسٹرمینیجمنٹ اینڈ ہیمیٹیرین اسسٹینس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب تیزی کے ساتھ بڑے پیمانے پر قدرتی آفات سے متاثر ہے۔
رپورٹ میں کلائمیٹ رسک انڈیکس2021 کا حوالہ دے کر بتایاگیا ہے کہ پاکستان 2000 سے 2019 کے درمیان شدید موسمی تبدیلی سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں آٹھویں نمبر پر ہے، جن میں خشک سالی، سیلاب، گرمی کی لہر، شدید سردی اور زلزلے شامل ہیں۔
انٹرگورنمنٹل پینل آن کلا ئمیٹ چینج (IPCC) اقوام متحدہ کا کلیدی سائنسی ادارہ ہے، جواس بحران پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ ادارے کا مقصد ہرسطح پرحکومتوں کو سائنسی معلومات فراہم کرنا ہے۔
آئی پی سی سی نے رپورٹ بتایا کہ سمندر کی سطح میں اضافے کی وجہ گلوبل وارمنگ ہے، جو بنیادی طور پرانسانی فوسل فیول کے استعمال کی وجہ سے ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ گرمی کی وجہ سے برف کی تہیں اور گلیشیئر پگھل رہے ہیں، جس سے سمندر میں پانی کا تناسب بڑھ رہا ہے۔
سائنسدانوں نے اگست2021 میں آئی پی سی سی کی رپورٹ میں لکھا کہ وہ پُریقین ہیں عملی طور پر21 ویں صدی میں عالمی سطح پرسمندر کی سطح میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
کراچی میں شدید بارشوں کے نتیجے میں متعدد افراد اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں، اسی سلسلے میں آج ڈیجیٹل نے سابق ایڈمنسٹریٹر ڈی ایم سی ساؤتھ افضل زیدی سے رابطہ کیا۔
افضل زیدی نے کہا کہ ایڈمنسٹریٹر کراچی کے ہمراہ شہر کے دورے کے دوران ہم نے دیکھا کہ جو مسئلہ سالوں پرانا ہے، اسے ایک دن میں حل نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن ہم کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ رواں سال مون سون بارشوں کے دوران ہمارا بنیادی مقصد تھا اہم شاہ ہراہوں پر پانی جمع نہ ہو جس سے عوام کو مشکلات ہوتی ہیں، جبکہ سیورج کے ناقص نظام کے سبب گلی محلوں میں اب بھی پانی جمع ہے۔
ماہرماحولیات ڈاکٹر رفیع الحق نے آج ڈیجیٹل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کا باقاعدہ نطام موجود نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں نو ماہ تک خشک ساحلی رہتی ہے لیکن جب بارش یا قدرتی آفات آتی ہیں، تو ہم ان سے نمٹنے کے لئے سنجیدہ اقدامات نہیں کرتے۔
میڈیکل کنسلٹنٹ فیملی فزیشن ڈاکٹر مختار بھٹو نے آج ڈیجیٹل کوبتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے پوری دنیا موسمیاتی تبدیلی کی لپیٹ میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ جگہ جگہ بارش کا پانی جمع ہونے کی وجہ سے وبائی امراض پھوٹنے لگتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ افراد ٹائفائیڈ اور پیٹ کی مختلف بیماریں میں مبتلا ہوتے ہیں، بالخصوص بچوں میں روٹا وائرس جنم لیتا ہے۔
صوبائی ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے کہا کہ بلوچستان میں بارشوں سے ہونے والی اموات کی تعداد 100 سے تجاوز کرگئی ہے۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق بارشوں اور برساتی ریلوں میں بہہ جانے والے گھروں کی تعداد 12 ہزارسے زائد ہے، جبکہ 19 لاکھ 79 ہزار30 ایکڑ پرمحیط فصلوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
اس سے قبل کوئٹہ کے فاطمہ جناح انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ ڈیزیزکی لیڈی میڈیکل آفیسر ڈاکٹرمہوش کے مطابق ژوب میں سیلابی صورت حال کی وجہ سے کئی اموات ہونے کے ساتھ بیشتر افراد اسپتال میں زیرعلاج ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بولان میڈیکل کمپلیکس (بی ایم سی) اورسول اسپتال کوئٹہ میں ڈائریا اور ہیضہ کے زیادہ کیسزرپورٹ ہوئے ہیں کیونکہ بارشوں کی وجہ سے وہاں مقامی لوگوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ہے۔
آج ڈیجیٹل کی جانب سے مستقبل میں ہیٹ ویو میں اضافے سے متعلق سوال پر ڈاکٹررفیع الحق کا کہنا تھا کہ ہیٹ ویو میں اضافہ ہوگا، جس سے بزرگ افراد زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سمندرمیں پانی کی سطح اضافہ سے متعلق کہا کہ ضلع ٹھٹھہ میں تقریبا 43 فیصد جبکہ ضلع سجاول کے علاقے کھارو چھان میں 34 فیصد تک افراد نقل مکانی کرچکے ہیں۔
ڈاکٹررفیع کے مطابق سمندری پانی کی وجہ سے مقامی آبادی علاقے میں محصور ہو جاتی ہے، جس وجہ سے خوراک کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ڈاکٹرمختار نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والی بیماریاں بزرگوں سمیت دل اورسانس کی بیماری میں مبتلا افراد کے لیے کافی حد تک نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ موسم کی تبدیلی کے سبب آکسیجن کی ساخت تبدیلی ہوتی ہے اورسانس کی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔
ڈاکٹر مختارنے مزید بتایا کہ سب سے زیادہ Community-acquired pneumonia (CAP) نامی بیماری سرفہرست ہے، جو ناصرف بچوں بلکہ بزرگوں کوبھی متاثر کرتی ہے۔
خیال رہے کہ کیپ نامی بیماری دنیا بھر میں اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے، جس میں نمونیا، کھانسی اور سانس لینے میں دشواری جیسے امراض کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔