جوکر کہیں، کلاؤن کہیں یا مسخرا۔۔۔ پینٹ شدہ مسکراہٹ، عجیب و غریب لباس اور بڑے پاؤں والے یہ لوگ آپ کو مختلف پارکوں یا دیگر تفریحی مقامات پر عوام کو ہنسانے کی کوشش کرتے نظر آئیں گے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ کئی لوگ انہیں دیکھ کر خوش ہونے کے بجائے ان سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔
لیکن ایسی کیا وجوہات ہیں کہ مزاح اور تفریح کا یہ عالمی نشان خوف کی علامت بن گیا؟
اس کی ایک مقبول وجہ ٹی وی قرار دی جاتی ہے۔
مشہورِ زمانہ کامک، کارٹون اور اب فلم “بیٹ مین” تو آپ نے دیکھی ہی ہوگی، جس کا مرکزی ولن ایک جوکر ہوتا ہے۔
فلم اور کامک میں بیٹ مین کے اس ازلی دشمن کو انتہائی خونخوار، ظالم اور بے رحم دکھایا گیا ہے۔
ہالی وُڈ نے مسخروں پر اب تک کی سب سے بہترین کمائی کرنے والی فلمیں بنائی ہیں۔
معروف ہالی وُڈ اداکار بل سکارسگارڈ نے 2017 کی فلم “اِٹ” میں “پینی وائز: دی ڈانسنگ کلاؤن” کا کردار ادا کیا، اس فلم نے پوری دنیا میں 570 ملین پاؤنڈ کمائے۔
یہ ایک ہارر فلم تھی جس میں موجود جوکر کے کردار نے سینما گھروں میں کئی ناظرین کے رونگٹے کھڑے کیے اور فشارِ خون بلند کیا۔
جوکر پینی وائز کا کردار پہلی بار1990 میں اسکرین پر آیا اور تب سے ہی ایک بدنام اور مشہور شکل بن گیا ہے۔
کچھ لوگ پینی وائز کو جوکروں میں سب سے خوفناک سمجھتے ہیں، اور یہ ڈیجیٹل ٹرینڈز کی فہرست میں خوفناک سرخ سر والی عفریت کی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔
لیکن پینی وائز کے علاوہ دوسرے مسخرے بھی ہیں جنہیں اتنا ہی خوفناک سمجھا جاتا ہے۔
ٹوبی ہوپر کی 1982 کی فلم “پولٹرجیسٹ” میں ایک جوکر کے حلیے والی گڑیا کو قتل و غارت گری مچاتے دکھایا گیا ہے۔
پولٹرجیسٹ کو وسیع پیمانے پر اب تک کی خوفناک ترین ہارر فلموں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ یہ فلم یاد دلاتی ہے کہ اگر آپ کسی آسیب زدہ جگہ پر رہیں تو ایک بار ضرور اپنے بستر کے نیچھے جھانک لیں۔
“امریکن ہارر اسٹوری” پر جان کیرول لنچ کی جانب سے کلی جانے والی “ٹوئسٹی” کی منظر کشی کمزور دل والوں کے لیے نہیں ہے۔
لیکن خوفناک مسخرے ضروری نہیں کہ ہمارے ٹی وی اور سنیما اسکرینوں تک ہی محدود ہوں۔
جان وین گیسی کا نام تاریخ کے سب سے بدنام اور خوفناک مسخروں کی فہرست میں آتا ہے جو حقیقی زندگی میں ایک سیریل کلر تھا۔
یہ سفاک ریپسٹ (عصمت دری کرنے والا) اور درندہ صفت قاتل بچوں کے لیے باقاعدگی سے شوز میں پرفارم کرتا تھا۔
اسے 1972 اور 1978 کے درمیان ہونے والے جرائم کے حیران کن ہنگامے کا مجرم قرار دیا گیا، اور اس کی سزائے موت پر 1994 میں مہلک انجکشن کے ذریعے عمل درآمد کیا گیا۔
اس کے جرائم میں 33 افراد کا قتل شامل تھا، جن میں سے 29 اس کے گھر کے نیچے دبے ہوئے پائے گئے۔
دریں اثنا، 2019 کی دستاویزی فلم “رنکلز: دی کلاؤن” نیپلز میں ایک آدمی کی حقیقی زندگی پر مبنی ہے جسے بچوں کو سدھارنے کے لیے کے لیے رکھا گیا ہے، یہ جوکر بچوں کو ڈراتا یا ان کے ساتھ ہلکا پھلکا مذاق کرتا تھا۔
جوکر یا مسخروں کا خوف اتنا عام ہے کہ محتاط اندازوں کے مطابق ہر 10 میں سے ایک ان سے ڈرتا ہے۔
“کولروفوبیا” مسخروں کے خوف کو دیا گیا ایک آفیشل نام ہے۔
صرف خوفناک فلمیں ہی نہیں جو اس خوف کی بنیادی وجہ بنتی ہیں۔
ہیلتھ ایکسپرٹ ہیلتھ لائن کا کہنا ہے کہ “ابتدائی دور میں رونما ہونے والے تکلیف دہ تجربات زندگی بھر کے لیے بڑے پیروں والے جوکروں کے خوف کا باعث بن سکتے ہیں، ہمارا دماغ اور جسم اس وقت سے ہی ٹرین ہوجاتا ہے کہ مسخروں کی کسی بھی صورت حال سے فوراً کیسے بچا جائے۔ “