پاکستان میں کچھ غیر روایتی صنعتیں بھی موجود ہیں جو پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ ان انڈسٹریز میں سرِ فہرست انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) آتی ہے۔
گزشتہ چند سالوں میں آئی ٹی برآمدات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
ملک میں موجود انجینئیرز اور آئی ٹی پروفیشنلز کا رجحان پچھلے کچھ سالوں میں فری لانسنگ کی جانب بڑھا ہے، ان کے کئی اسٹارٹ اپس اور آئیڈیاز کو زبردست فنڈنگ بھی ملی۔
لیکن موجودہ وفاقی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ نئے بجٹ میں کئی نئے ٹیکسز لاگو کئے گئے ہیں، جن کے باعث اس بڑھتی ہوئی نئی انڈسٹری اور معیشت کو نئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ملک کی موجودہ صورتِ حال کے باعث یہ صنعت اب خطرے میں ہے؟
اس حوالے سے “پاشا” کے چئیرمین بدر خوشنود کا کہنا ہے کہ سال 2000 کے اوائل سے آئی ٹی ایکسپورٹ کو ٹیکس سے استثنا حاصل تھا، جو 2020-21 تک تو برقرار رہا، حالانکہ یہ استثنا 2025 تک حکومت کی جانب سے منظور شدہ تھا اور کاغذات میں درج بھی ہے۔
لیکن 2020-21 کے بجٹ میں حکومت نے پرائیویٹ سیکٹر سے بنا کسی صلاح مشورہ کے اس کو ٹیکس کریڈٹ اسکیم میں تبدیل کردیا۔ جس کی وجہ سے پالیسی میں تسلسل نہ رہا اور آئی ٹی برآمدات نیچے آنا شروع ہوگئیں۔انہوں نے موجودہ حکومت سے پالیسی کے تسلسل کو برقرار رکھنے کی اپیل کی تاکہ کمپنیوں اور فری لانسرز نے جو اپنے بزنس پلانز بنائے ہوئے ہیں وہ متاثر نہ ہوں۔
انہوں نے کہا کہ آج تک پاکستان کے قانون میں سافٹ وئیر کی تعریف بطور مصنوع درج نہیں ہے، ہم چاہتے ہیں کہ اس کی تعریف اور درجہ بندی کی جائے تاکہ اس حساب سے ٹیکس اور دیگر معمالات کو انجام دیا جاسکے۔
بدر خوشنود کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں فری لانسنگ اور آئی ٹی کی طلب بڑھ رہی ہے، لیکن ہمارے یہاں اس سے موصول ہونے والے سرمایہ کی منتقلی کے عمل کو بہت مشکل بنا دیا گیا ہے۔
انہوں نے حکومت سے گزارش کی کہ جو بھی پیسہ باہر سے آرہا ہے وہ اسٹیٹ بینک کے توسط سے اور قانونی طور پر آرہا ہے، اس لیے فی الحال جو 2025 تک کی پالیسی تھی اسے بحال کیا جائے تاکہ پاکستان میں ڈالرز کی صورت میں سرمایہ آسکے۔
پاکستان پر ایمازون کا عدم اعتماد
ایمازون پر سیلرز کے حوالے سے پاکستانی دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر ہیں، لیکن اس کے باوجود ایمازون پاکستان میں ڈیلیوری نہیں کرتا۔
بدر نے اس بات کی وضاحت میں کہا کہ پاکستانی سیلرز کی رینکنگ تیسری ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی چیزیں یہاں بک رہی ہیں یا پاکستان سے باہر جا رہی ہیں، بلکہ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان سے اکاؤنٹس، رجسٹریشنز اور سائن اپس زیادہ ہوئے ہیں۔
پاکستان میں ایمازون ڈیلیوری کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے ملک میں عالمی معیار کی پیکنگ، چکنگ اور مصنوعات کی ضرورت ہے، جو کہ یہاں موجود نہیں ۔
کیا گرتا روپیہ اور ڈالر کی بڑھتی قیمت اسٹارٹ اپس اور آئی ٹی انڈسٹری کے لیے فائدہ مند ہے؟
بدر کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ڈالرز اوپر جارہا ہے تو کمپنیوں کو فائدہ ہورہا ہے، کیونکہ روپیہ زیادہ آرہا ہے۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب روپے کی قدر میں کمی ہوتی ہے تو قیمتیں بڑھ جاتی ہیں، بجلی مہنگی ہوتی ہے، مصنوعات بنانے کا خرچ بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے قیمتیں بھی بڑھانی پڑتی ہیں جو کمپنی کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہوتا۔
P@SHA پاکستان میں آئی ٹی انڈسٹری کے لیے ایک فعال تجارتی ادارہ اور رجسٹرڈ ایسوسی ایشن ہے، جو بنیادی طور پر پاکستان میں سافٹ ویئر اور خدمات کی صنعت کو فروغ اور ترقی دینے اور اس کے اراکین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرتا ہے۔