اگر آپ کبھی مون سون بارشوں میں کراچی میں واقع ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کا رُخ کریں، تو آپ کا سامنا ایسے گڑھوں اور تالابوں سے ہوگا جو آپ کی اچھی خاصی فور وہیلر گاڑی کو کشتی میں بدل دیں گے۔
جس نے بھی ڈی ایچ اے میں برساتی نالوں کا ڈیزائن تخلیق کیا، اس شخص کی سوچ کیا تھی؟
سڑکوں کے دھنسے ہوئے درمیانی حصے اور ان پر رکھے کنکریٹ کے سلیبز جو بیچ میں سے کھلے ہیں۔
یعنی ایسی سول انجینئرنگ کا استعمال جو انتہائی غیر معمولی اور قدیم محسوس ہو، جیسے ڈی ایچ اے نے مسئلے کو سستے میں نمٹانے کی کوشش کی ہو۔
لیکن آپ کو جان کر حیرت کا شدید جھٹکا لگے گا کہ یہ کام اتنا بھی سستا نہیں تھا، جتنا دیکھنے میں لگتا ہے، اس کام کی لاگت پر 2.3 ارب روپے خرچ کئے گئے تھے۔
جہاں تک اسٹورم ڈرینیج (برساتی نالیوں) کا تعلق ہے، یہ سسٹم نسبتاً کافی پرانا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن اس نظام کو بنانے والے ڈاکٹر بشیر لاکھانی کے لیے یہی واحد آپشن تھا۔
انہوں نے آج نیوز کے ساتھ ڈی ایچ اے میں سیلاب کے رجحان اور جولائی میں وہاں دوبارہ سیلابی صورتِ حال کے حوالے سے طویل گفتگو کی۔
ڈاکٹر بشیر یہ بھی بتایا کہ انہوں نے وہاں نالوں کا جال کیسے بچھایا اور اگلے مون سون میں کسی آفت سے بچنے کے لیے کیا کیا جانا چاہیے؟
ڈی ایچ اے میں مون سون کی تباہ کاریاں
آئیے ہم آپ کو ذرا پندرہ سال پیچھے لے کر چلتے ہیں۔ 23 جون 2007 کو مون سون سسٹم نے شہرِ قائد میں ایک گھنٹے میں 17.2 ملی میٹر پانی برسا کر 90 سالہ ریکارڈ توڑا، 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، شہر ڈوب گیا۔ لیکن ڈی ایچ اے کے لیے یہ ایک ایسا بحران تھا جس کا ہاؤسنگ اتھارٹی نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔
صورتِ حال سے پریشان بورڈ ایک ایسے شخص کے پاس گیا جو ان کے خیال کے مطابق ممکنہ طور پر مددگار ثابت ہوسکتا تھا۔
ڈاکٹر بشیر لاکھانی، امریکا کی ایریزونا یونیورسٹی سے آبپاشی اور آبی وسائل میں پی ایچ ڈی ہیں، جنہوں نے تدریسی کام چھوڑ دیا تھا تاکہ وہ پاکستان واپس آسکیں، جہاں اب وہ اپنی فرم “ٹیکنو کنسلٹنٹ پرائیویٹ لمیٹڈ” چلا رہے ہیں۔
بورڈ کا اعتماد اس حقیقت پر مبنی تھا کہ انہوں نے مصطفیٰ کمال کے دور میں کراچی کا بلک واٹر سپلائی پروجیکٹ K-III بنایا۔بہت کم لوگ تھے جو کراچی کے علاقے اور پانی کی صورتِ حال کو ان کی طرح جانتے اور سمجھتے تھے۔
2007 میں ڈی ایچ اے کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ڈاکٹر بشیر لاکھانی نے بتایا کہ، “جب میں نے حساب لگایا اور نمبرز دیے تو میں نے انہیں (بورڈ کو) بتایا کہ بارش کا پانی سیوریج سے سو گنا زیادہ ہے۔”
خیابانِ حافظ، ای اسٹریٹ، خیابانِ اتحاد اور بیچ ایونیو کے درمیان، جو ڈی ایچ اے کا ایک بڑا حصہ ہے، میں ان کے تخمینے کے مطابق 500 ملین گیلن پانی براستی پانی موجود تھا۔
ڈی ایچ اے اس پانی سے جان چھڑانے کے لیے باؤزر کا شدت سے استعمال کر رہا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ “میں نے ان سے کہا آپ یہ کام جاری رکھ سکتے ہیں لیکن آپ یہ سب ختم نہیں کر پائیں گے۔”
ڈاکٹر بشیر نے اصرار کیا کہ انہیں اس سے آگے سوچنا ہوگا۔
“میں نے کہا، ذرا دھابیجی جاؤ۔ یہ کراچی کو روزانہ 500 ملین گیلن پمپ کرتا ہے۔ دیکھو کتنا بڑا نظام ہے۔ کیا آپ ایسا سسٹم انسٹال کر سکتے ہیں، جو سال میں ایک بار کام کرنے والا ہو۔ کیا آپ ایسا نظام برقرار رکھ سکتے ہیں؟ نہیں، یہ ممکن نہیں ہے۔”
اس بحران میں ڈی ایچ اے کا واحد حل قدرتی کشش ثقل تھا۔
چنانچہ، ڈاکٹر بشیر کے مشورے پر ڈی ایچ اے بورڈ نے بیچ ایونیو کو بیچ سے توڑ کر خیابانِ شمشیر اور سحر میں تقسیم کردیا۔
اور پانی نکلنے لگا!!!
ڈی ایچ اے میں نالیوں کا نظام بچھانا
2007 میں ڈی ایچ اے کے لیے کھڑے پانی سے نمٹنا ترجیحی کام تھا۔
اتھارٹی نے ڈاکٹر بشیر سے کہا کہ وہ اگلے مون سون تک ان کے لیے نکاسی آب کا نظام بنائیں۔
ہاؤسنگ سوسائٹی کے اصل حصے، ڈی ایچ اے فیز ون اور ٹو، نالوں کے ساتھ بنائے گئے تھے۔
ڈاکٹر بشیر نے کہا کہ “جب دیگر فیز بنانے کی باری آئی تو ان پر عمل درآمد 1990 کی دہائی میں کیا گیا، جب پاکستان مجموعی طور پر ہائیڈرولوجیکل خشک موسم سے گزر رہا تھا۔”
انہوں نے سوچا کہ کراچی ایک بنجر، نیم خشک علاقے میں واقع ہے، انہوں نے یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ کبھی بارش بھی ہوگی۔
اب، چیلنج یہ تھا کہ ڈی ایچ اے پہلے ہی بن چکا تھا، اور زیرِ زمین یوٹیلیٹی کنکشنز کا جال بچھا دیا گیا تھا۔
ڈاکٹر بشیر نے کہا کہ “سڑکوں کے اطراف میں جگہ محدود تھی۔ لیکن دونوں جانب نئے نالے ڈالنے کے لیے فٹ پاتھ نہیں تھے۔ تو مجھے یہ سڑک کے بیچ میں کرنا پڑا۔”
پہلے تو انہوں نے سوچا کہ وہ سطح کے نیچے ایک باکس نما نالے کے لیے سڑک کی پوری لمبائی کاٹ دیں (تکنیکی وجوہات کی بناء پر انہوں نے پائپ کا انتخاب نہیں کیا)۔
وہ اطراف میں کھلی جگہیں دینا چاہتے تھے، جو ترچھی ڈھلوان والی زیر زمین نالیوں سے جڑی ہوں گی اور نیچے گہرے مین باکس ڈرین میں جا گریں گی۔
لیکن اس کا کام کو انجام دینے کا مطلب تھا کہ انہیں پورے علاقے کو بند کرنا پڑتا، تو اس آئیڈیا کو منسوخ کردیا گیا۔
ڈاکٹر بشیر جانتے تھے کہ انہیں سڑک کے بیچوں بیچ کام کرنا ہے، لیکن سوال یہ تھا کہ بارش کا پانی ان کے بنائے ہوئے نالے میں کیسے جائے گا؟
اس کے لیے انہوں نے ہر 10 فٹ کے فاصلے پر لوہے کی گرلز نصب کرنے کی تجویز پیش کی، لیکن ڈی ایچ اے نے کہا کہ وہ چوری ہو جائیں گی۔
آخر کار، انہوں نے جوڑوں والے کنکریٹ سلیب کے ڈھکنوں کا فیصلہ کیا۔
ڈاکٹر بشیر نے مزید بتایا کہ “ مجھے اب بھی ڈی ایچ اے اتھارٹی کی میٹنگ یاد ہے جب میں نے یہ منصوبہ بنایا، اس وقت کے ایڈمنسٹریٹر بریگیڈیئر افتخار جو مجھے K-III سے جانتے تھے، انہیں مجھ پر اعتماد تھا۔ میں نے بتایا کہ اس پر 2.3 ارب روپے لاگت آئے گی جو اوسطاً 200 ملین روپے ماہانہ ہے۔ “
سیکرٹری کھڑے ہوئے اور کہا کہ یہ ناممکن ہے۔ پھر بہت بحث ہوئی، اور معاملات منجد ہوگئے۔ لیکن پھر بریگیڈیئر افتخار نے کہا، ‘ڈاکٹر صاحب، کیا آپ یہ کر سکتے ہیں؟’
ڈاکٹر بشیر نے کہا کہ وہ کر سکتے ہیں۔ رقم حاصل کرنا ڈی ایچ اے پر منحصر ہوگا۔ انہیں ایک چینی ٹھیکیدار سے تیار کردہ آر سی سی 1 میٹر بائے 1.5 میٹر کنکریٹ ڈرین سیکشنز ملے۔
پلان یہ تھا کہ ہر سڑک کے لیے مختلف ٹھیکیدار کو ٹھیکہ دیا جائے، اس طرح کام تیزی سے ہوگیا۔
نتیجہ؟ طوفانی بارشوں کی نکاسی کا ایسا نظام جو آپ کسی کلائنٹ کے لیے بنائیں اور بیس سال بعد اسے احساس ہو کہ انہیں واقعی اس کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر بشیر نے صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئےاعتراف کیا کہ “مجھے ذاتی طور پر یہ پسند نہیں ہے، دراڑیں بند ہو جاتی ہیں۔”انہوں نے کہا کہ حقیقی طور پر یہ دیکھ بھال ڈی ایچ اے کے لیے سر درد تھی۔
ایک سال بعد مون سون، ایک نیا امتحان
اگلی بار بادل جم کر برسے تو ڈاکٹر بشیر متجسس تھے۔
انہوں نے بتایا کہ “مجھے یاد ہے 2009 میں، میرے پاس پراڈو تھی اور رات کو بارش ہو رہی تھی اس لیے میں اپنے کام کا حال دیکھنے نکل پڑا۔ “
وہ خیابانِ شمشیر کی طرف روانہ ہوئے، اس دورانان کے فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف بریگیڈیئر افتخار تھے۔ وہ اور ڈی ایچ اے کے دیگر اراکین بیچ ایونیو پر موجود تھے۔
انہوں نے کہا، ‘‘ڈاکٹر صاحب، پانی ایک سے ڈیڑھ فٹ تک بھر رہا ہے!’’
ڈاکٹر بشیر نے جواب دیا، ‘‘ہاں، یہ ضرور ہوگا۔’’
انہوں نے تحمل سے سمجھانے کی کوشش کی کہ انہوں نے سسٹم کو تین گھنٹے میں ایک انچ بارش (یا 24 گھنٹے میں 8 انچ) کے لیے ڈیزائن کیا تھا۔ وہ اس حجم میں تین گنا اضافے کا تجربہ کر رہے تھے۔
بریگیڈیئر افتخار نے ڈاکٹر بشیر سے پوچھا، “کیا ہم نے غلط اندازہ لگایا ہے؟ “
ڈاکٹر بشیر نے بریگیڈیئر کو مشورہ دیا کہ وہ بیچ ایونیو پر بنائے گئے آؤٹ لیٹس پر جائیں۔ اور یقینی طور پر وہاں سے پانی سمندر میں میں پوری رفتار سے گر رہا تھا۔
ڈاکٹر بشیر نے ان سے کہا کہ فجر تک واضح ہو جائے گا کہ سسٹم کام کر رہا ہے۔
صورتِ حال وہاں تھوڑی دیر کے لیے نازک ضرور محسوس ہو رہی تھی۔ لیکن آپ کبھی بھی بڑے حجم کے لیے ڈیزائن نہیں کر پاتے۔
ڈاکٹر بشیر نے بتایا، “ایک غلط فہمی یہ بھی تھی کہ ڈی ایچ اے سطح سمندر سے نیچے ہے، ایسا نہیں ہے۔
انہوں نے بریگیڈئیر افتخار کو سمجھایا کہ انہوں نے جوار کے مطابق ڈیزائن بنایا تھا۔
ڈاکٹر بشیر نے سوچا تھا کہ وہ نیم اونچے جوار کے لیے ڈی ایچ اے کے نکاسی آب کو ڈیزائن کرنے کا انتظام کر سکتے ہیں۔
ہائی ٹائیڈ (بھاری جوار) دو گھنٹے تک جاری رہے گی۔ یہ تھوڑی دیر کے لیے تکلیف دہ ضرور ہوگا، لیکن پھر پانی آخرکار نکل ہی جائے گا۔
کلفٹن کے 2007 کے سیلاب سے نمٹنا
ڈی ایچ اے کے ساتھ ساتھ سٹی گورنمنٹ نے بھی ڈاکٹر بشیر لاکھانی کی خدمات حاصل کی تھیں۔ لیکن کلفٹن، خاص طور پر بلاک 7 کے لیے، جو 2007 میں سیلاب کی زد میں تھا۔
سیلاب زدہ انڈر پاس تو آپ کو یاد ہی ہوگا۔
ڈاکٹر بشیر نے کہا کہ “کلفٹن میں ایک فائدہ تھا، اس میں فٹ پاتھ بنے ہوئے تھے۔”
نالے عام طور پر فٹ پاتھوں کے نیچے بنائے جاتے ہیں۔
“میں نے ان کے نیچے اپنے نالے بنائے اور تین تلوار اور انڈر پاس کے درمیان ان کے دہانے کھول دیے۔”
سڑک کے دونوں طرف نالہ بنا کر نہر خیام سے ملایا گیا۔ ڈاکٹر بشیر کو یہ حساب لگانا تھا کہ نہر خیام میں پانی کس سطح پر ہے اور پھر وہاں سے پیچھے کی طرف باتھ آئی لینڈ تک کام کرنا تھا۔
سیوریج اور برساتی پانی کے نظام کو ہمیشہ اختتام یا ڈسپوزل پوائنٹ سے ڈیزائن کیا جاتا ہے۔
اگر آپ پانی کے آغاز سے شروع کرتے ہیں اور آخر تک جاتے ہیں، تو آپ کو پانی کے نظام میں بیک اَپ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) شون سرکل انڈر پاس میں چھوٹی نالیاں اور ایک پمپ ہے، لیکن اگر اس کے اطوار کے علاقے سے پانی نہیں نکل پاتا تو ٹنل میں سیلاب آجائے گا۔
انڈر پاس نالی کی طرح کام کرنے کے لیے نہیں بنایا گیا۔
نالیوں کو انڈر پاس کے اپنے پانی کو پورا کرنے کے لیے ڈیزائن کیا جاتا ہے۔ اگر اردگرد سے پانی انڈر پاس میں آجائے تو وہ اسے برداشت نہیں کر پاتیں۔ اردگرد سے آنے والے پانی کو گردو نواح میں سنبھالنا پڑتا ہے۔
ڈی ایچ اے فیز فور کا انوکھا مسئلہ
ڈاکٹر بشیر ڈی ایچ اے فیز فور کا خصوصی ذکر کرتے ہیں، جو نشیبی کے باعث خاص طور پر پریشان کن علاقہ ہے۔ یہ خیابانِ بحریہ سے امام بارگاہ کے ساتھ اور کمرشل ایوینیو سے سن سیٹ بلیوارڈ تک ہے۔
فیز فور پر کچھ کام پہلے (2004-2005) ایک دوسری کمپنی ای سی آئی ایل کو دیا گیا تھا۔ ان کی ویب سائٹ پر اس بارے میں کافی ذکر موجود ہے۔
1 - DHA Phase 4 Karachi , near Bait Us Salam Majid - This is not just yesterday but after every rain
— Aamir Mughal (@mughalbha) August 29, 2020
#DHA #CliftonCantonmentBoard #StormWaterDrain #KarachiRains #KarachiRain #KarachiSinks pic.twitter.com/kQBCaUKEwU
(تصحیح: ڈاکٹر بشیر کی 2007-2008 کی مصروفیات کے سلسلے میں کام کی ٹائم لائنز کو واضح کرنے کے لیے اس مضمون کے پہلے ورژن میں ترمیم کی گئی ہے)۔
کمپنی کی ویب سائٹ کہتی ہے کہ انہوں نے ان پہلوؤں کی نگرانی کی:
ڈی ایچ اے فیز فور اور فائیو کے ٹپوگرافک اشکال
موجودہ سیوریج سسٹم مین ہول سے مین ہول سروے
نا مناسب گریڈیئنٹس کے ساتھ موجودہ سیور لائنز
مجوزہ سیوریج سسٹم لے آؤٹ پلان
موجودہ اور مجوزہ برساتی پانی کی نکاسی کا نظام
ڈاکٹر بشیر کے مطابق، فیز فور میں سیلاب سے نمٹنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اسے محمود آباد نالے سے جوڑنے اور خیابانِ حافظ کے ساتھ ساتھ کسی بھی پانی کو سمندر میں ڈالنے پر غور کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ “میں نے ایک اور نالی تجویز کی تھی جسے اس حصے میں دفن کر کے بند کر دیا جائے گا۔”
“ایک نئی شریان جسے پاپولر ایوینیو سے محمود آباد نالے سے جوڑ دیا جائے گا۔”
ڈاکٹر بشیر پہلے بھی کچھ ایسا ہی کر چکے تھے اور وہ بخوشی اس کامیابی کا ذکر کرتے ہیں۔
انہوں نے پوچھا، “ڈی ایچ اے کا سب سے نچلا علاقہ کونسا ہے ؟”
اور پھر اپنے ہی سوال کے جواب میں آنکھوں میں چمک لیے بولے ‘‘کھڈا مارکیٹ’’۔
یہ انتہائی اونچے خیابانِ شمشیر اور مجاہد سے گھرا ہوا ہے، لفظی طور پر یہ ایک پیالے کی شکل میں ہے، اس لیے کوئی بھی سمجھے گا کہ یہ باآسانی سے زیرِ آب آجائے گا۔ اور واقعتاً یہ 2007 میں ہفتوں تک چار فٹ پانی ڈوبا رہا۔
لیکن اب وہاں پانی نہیں بھرتا، اس کا ایک خاص ڈیزائن ہے۔ میں نے نالے کو خیابان سحر سے جوڑ دیا۔ یہ سطح سے 10 فٹ نیچے ہے لہذا آپ اسے نہیں دیکھ سکتے!
ڈی ایچ اے کے لیے آگے کیا ہے؟
ڈاکٹر بشیر کا کہنا ہے کہ جب کراچی کو 1960 کی دہائی میں کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) کے منصوبہ سازوں نے ڈیزائن کیا ، تو انہوں نے ایک بہترین کام کیا۔
فیڈرل بی ایریا، نارتھ ناظم آباد، ناظم آباد اور پی ای سی ایچ ایس میں فٹ پاتھ، جزیرے، سروس روڈز ہیں۔
ان ٹاؤن پلانرز نے یہاں دو بڑی چیزیں کیں جو ڈی ایچ اے کے پاس نہیں ہیں۔ انہوں نے ٹپوگرافی (علاقہ) اور برساتی پانی نکاسی کے نظام کے لیے کشش ثقل کا استعمال کیا۔
کے ڈی اے کے منصوبہ سازوں نے گجر نالے، کلری نالے، پچر، سولجر بازار کے نالوں پر کام کیا۔
اگر آپ ان نالوں کی سیدھ کو دیکھیں تو یہ زگ زیگ میں ہیں، ان میں سے کوئی بھی سیدھا نہیں ہے۔ ٹاؤن پلانرز نے انہیں سیدھا کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔
انہوں نے ان قدرتی برساتی پانی کے راستوں کے ارد گرد اپنی آبادیوں، عمارتوں، زمین کی تزئین کی منصوبہ بندی کی، انہیں چھیڑے بغیر۔
اگر ڈی ایچ اے مزید توسیع کرتا ہے، تو سیکھنے والا سبق یہ ہوگا کہ برساتی پانی کی نکاسی کو یقینی بنایا جائے اور اگر ممکن ہو تو اسے ان علاقوں میں داخل کیا جائے جہاں تعمیرات شروع نہیں ہوئی ہیں۔
اس کے لیے ماسٹر پلاننگ ضروری ہے۔
لیکن ڈاکٹر بشیر کو اس پر شک ہے، کیونکہ ڈی ایچ اے کا انتظام ہر تین سال بعد تبدیل ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ “وہ شخص جس نے 2007 کی بارش دیکھیں، وہ چلا گیا۔ نئے آدمی کو کوئی اندازہ نہیں اور اب وہ پھر رو رہے ہیں۔ پھر وہ بھول جائیں گے.’’
جب ڈاکٹر بشیر نے ڈی ایچ اے کے اسٹورم واٹر ڈرین بچھانے کے پہلے مرحلے کو مکمل کیا تو انہوں نے سوچا کہ وہ دوسرا مرحلہ شروع کریں گے۔کنکریٹ سلیب باکس کی نالیوں کو مکمل کرنے کی ضرورت تھی، لیکن کام کبھی آگے نہیں بڑھا۔
ڈاکٹر بشیر کے مطابق، جب انہوں نے اگلے ایڈمنسٹریٹر سے اس معاملے پر بات کی تو انہیں بتایا گیا کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
جواب ملا، “یہ کوئی سپر ہائی وے تو نہیں ہے جو لڑکے اپنی کاریں دوڑائیں ۔اچھا وہ تھک تھک کر جائیں گے، آہستہ چلائیں گے۔”