مہتاب سنگھ کو وہ وقت ابھی بھی یاد ہے جب انہیں وادی تیراہ میں اپنا گھر اور کھیت کھلیان چھوڑ کر اچانک پشاور کی طرف نکلنا پڑا تھا۔
یہ سال 2009 کی بات ہے جب ضلع خیبر مکی وادی تیراہ میں شلوبر قمبر خیل نامی علاقے کے رہائشی مہتاب سنگھ علاقے میں جاری شدت پسندی کی لہر سے خوف زدہ ہو کر سکھ برادری کے دیگر افراد کے ہمراہ پناہ کی تلاش میں پشاورآگئے تھے۔
مہتاب سنگھ وہاں اپنا جنرل سٹور چلاتے تھے اور ساتھ ہی کچھ زمین تھی جس پر اگنے والے اناج اور سبزی سے انکا گزر بسر ہوتا تھا۔
لیکن پھر حالات بدلے اور شدت پسندوں کے خلاف ہونے والی کاروائیوں سے پیدا ہونے والی صورتحال انہیں پشاور لے آئی۔
نہ صرف خیبر بلکہ اورکزئی اور کرم میں بھی کئی سکھ خاندان آباد تھے۔
ضلع خیبر کے مختلف علاقوں میں ایک ہزار سے زائد، کرم میں 450 اور اورکزئی میں 250 سکھ خاندان آباد تھے جن میں سے کچھ امن وامان کی بدتر ہوتی صورتحال کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑ کر پشاور کے علاقے محلہ جوگن شاہ میں گوردوارہ بھائی جوگا سنگھ منتقل ہوئے۔
کئی خاندانوں کو گوردوراہ پنجہ صاحب حسن ابدل بھیجوادیا گیا، جن کے لیے سہولیات مہیا کرنے کی تمام ذمہ داریاں پاکستان گوردوارہ پربندر کمیٹی اور گوردوارہ بھائی جوگن شاہ کی کمیٹی نے سنبھالیں۔
سجنان سنگھ کا تعلق باڑہ سے ہے جو وہاں زمین کے مالک تھے اورباڑہ بازار میں کپڑے کی دکان میں بھی کرتے تھے۔ لیکن آپریشن کے دوران دکان تباہ ہوگئی اور انہیں اپنی برداری کے لوگوں کے ساتھ پشاور نقل مکانی کرنا پڑی۔
سجنان نے بتایا کہ 10 سال تک وہ امن کی بحالی کا انتظار کرتے رہے کہ شاید ایک بار پھر وہ اپنے علاقے میں جا سکیں لیکن ایسا ممکن نہیں رہا کیونکہ وہ جب صوبائی دارالحکومت پشاور میں محفوظ نہیں رہے تو ان علاقوں میں واپسی کیسے محفوظ ہو سکتی ہے۔
انہوں نے شکوہ کیا کہ وہ شدت پسندی کے خلاف ہونے والے آپریشن کی وجہ سے اپنا علاقہ اور گھر کاروبار چھوڑ کر آئے لیکن نہ تو ان کی رجسٹریشن ہوئی نہ ہی انہیں ابھی تک کوئی معاوضہ ملا۔
یہی مسئلہ مہتاب سنگھ کا بھی تھا کہ انکے خاندان کی بھی رجسٹریشن نہ ہوسکی اور چونکہ ابھی وہ دوبارہ شلوبر واپس نہیں گئے اس لیے انہیں گھروں کے معاوضے کے سروے میں بھی شامل نہیں کیا گیا۔
ضم شدہ علاقوں کی سکھ برادری کے نمائندے گرپال سنگھ کے آباو اجداد پاکستان بننے سے قبل ہی خیبر میں آبسے تھے۔
گرپال سنگھ نے بتایا کہ جنت نظیر وادی تیراہ سمیت اورکزئی اور کرم میں سینکڑوں سکھ خاندان آباد تھے۔ لیکن 2009 میں شدت پسندی کے غلبے کے بعد جب سکھ برادری سے بھتہ مانگنے سمیت گھروں میں گھس کر مذہبی کتابوں اور عورتوں کی توہین تک بات پہنچی تو بہتر یہی سمجھا گیا کہ اب علاقہ چھوڑ دینا چاہیے۔
سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد پشاور، ننکانہ صاحب، حسن ابدال، فیصل آباد، کراچی اور سرگودھا منتقل ہوگئے تاہم 600 گھرانے پشاور میں آباد ہوئے جنکی تعداد لگ بھگ 15 ہزار افراد بنتے ہیں،400 سے زائد گھرانے صرف تیراہ سے پشاور منتقل ہوئے اور آج بھی یہاں آباد ہیں۔
گرپال سنگھ کے مطابق ان علاقوں میں بسنے والے زیادہ ترسکھ کھیتی باڑی کرتے اور کچھ تعداد کاروبار سے وابستہ تھے۔
گرپال سنگھ نے بتایا کہ المیہ یہ ہے کہ جب سکھ برادری اپنے گھر بار چھوڑ کر پاکستان کے دوسرے علاقوں میں منتقل ہوئی تو ان میں سے اکثر کی رجسٹریشن نہیں ہوئی کیونکہ یہ لوگ گردواروں کے زیر انتظام رہے اس لیے حکومت کے پاس انکا کوئی ڈیٹا نہیں تھا۔
پھر بعد میں ہمارے رہنماوں نے نقل مکانی کرنے والے گھرانوں کی فہرستیں تیار کر کے مقامی انتظامیہ اور پی ڈی ایم اے کو دیں لیکن تیراہ سے منتقل ہونے والے 400 سے زائد گھرانوں میں سے صرف 30 خاندانوں کی مدد کی گئی۔
کرم، اورکزئی اور تیراہ میں ایک یا دو خاندان واپس گئے اگرچہ کچھ لوگ دکانیں چلاتے ہیں لیکن اب حالات پھر سے خراب ہونے لگے ہیں جس کی وجہ سے سکھ برادری خوف کا شکار ہے کیونکہ کچھ عرصے سے پشاور میں بھی سکھوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
گرپال سنگھ نے بتایا تیراہ سمیت دیگر وادیوں میں کون نہیں جانا چاہے گا۔
“ہمیں وہاں بڑا سکون ملتا ہے۔”
سکھ برادری بھی اپنے گھروں اور تاریخی گردواروں کی بحالی چاہتی ہے تاکہ وہ وہاں اپنی مذہبی رسومات ادا کر سکیں۔
“اورکزئی اور کرم کے علاقوں ابراہیم زئی ،ملانا اور مالی خیل میں تاریخی گرودوارے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ وہ کھلیں، سال میں ایک دفعہ ہی سہی لیکن وہاں مذہبی رسومات کی ادائیگی شروع کی جائے اس سے مذہبی سیاحت کو بھی فروغ ملے گا۔”
آپریشن زدہ علاقوں میں تباہ ہونے والے گھر اور دکان
خیبر آپریشن کو ختم ہوئے سات سال ہونے کو ہیں لیکن علاقے میں تباہ ہونے والے گھروں اور دکانوں کے معاوضے کی بات کی جائے تو کہانی ابھی بھی ادھوری دکھائی دیتی ہے جس کا اظہار سکھ برادری کے افراد نے کھل کر کیا۔
کسی کے سروے مکمل نہ ہونے تو کسی نے رجسٹریشن نہ ہونے کا گلہ کیا۔
قبائلی اضلاع سے بے گھر افراد کو رجسٹریشن اور دیگر سہولیات مہیا کرنے کی ذمہ داری ادا کرنے والے ادارے پراونشل ڈائزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے عہدیداروں کے مطابق ایس او پیز کے تحت کسی بھی عارضی طور پر منتقل ہونے والے شخص کی رجسٹریشن کے لئے سب سے اہم انکے رہائشی پتے ہوتے ہیں۔
اگر کسی بھی فرد کے شناختی کارڈ پر دو پتے ہوں تو وہ رجسٹریشن کا اہل نہیں ہوتا۔
انہوں نے بتایا کہ تیراہ سے نقل مکانی کرنے والے ایک ہزار 160 خاندان اب تک اپنے علاقوں کو واپس جا چکے ہیں اور واپسی کی اگلی تاریخ 26 سے 30 جون ہے۔
تاہم جہاں تک تعلق آپریشن سے متاثرہ مکانوں اور دکانوں کے معاوضے کا ہے اسکی ذمہ داری سٹیزن لاسس کمپنسیشن پروگرام کی ہے جو ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مل کر واپس جانے والے عارضی طور پر منتقل افراد کے گھروں کا سروے کر کے انہیں موقع پر فارم فراہم کرتے ہیں اور پھر معاوضوں سے متعلق اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔
متعلقہ حکام نے بتایا کہ 7سات ہزار گھروں کا سروے مکمل کر لیا گیا ہے جبکہ مزید ساڑھے سات ہزار فارم جاری بھی کئے گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ علاقوں میں واپسی کے حساب سے سروے ہو رہے ہیں۔
تاہم اس بات کا اقرار ابھی سامنے آیا کہ قبائلی اضلاع سے بے گھر اقلیتی برادری کے الگ سے کوئی اعداد و شمار موجود نہیں کیونکہ متاثر علاقوں میں رہائش پزیر اقلیتی برادری کی الگ سے رجسٹریشن نہیں کی گئی بلکہ دیگر افراد کے ساتھ ان لوگوں کے نام بھی درج کردئیے گئے اور علاقے میں واپس جانے والوں کا سروے بھی ہو رہا ہے۔
تکنیکی وجوہات کی بنا پر معامالات تاخیر کا شکار ہیں ۔اب یہ تکنیکی وجو ہات کیا ہیں حکام اس سوال کا تسلی بخش جواب دینے سے گریز نظر آئے۔