واشنگٹن: امریکہ میں قیدیوں سے کام کروا کر کروڑوں ڈالر کی رقم کمائی جاتی ہے۔
رواں ہفتے امریکی سول لبرٹیز یونین اور یونیورسٹی اَف شکاگو کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق قیدی اکثر غیر محفوظ صورتحال میں کام کرتے ہیں جس سے امریکہ کی وفاقی اور ریاستی حکومتیں کروڑوں ڈالر بناتی ہیں اور بدلے میں انہیں تھوڑا ہی معاوضہ ملتا ہے۔
واضح رہے کہ امریکا کی تمام جیلوں میں قیدیوں کی مجموعی تعداد 12 لاکھ جو کہ دنیا میں کسی ملک کے لحاظ سے سب سے زیادہ ہے۔
‘کیپٹیو لیبر: ایکسپلائیٹیشن آف انکارسیریٹڈ ورکرز’ نامی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ کی جیلوں میں موجود قیدیوں میں سے دو تہائی جیل میں ہی نوکری کرتی ہیں اور سالانہ 11 ارب ڈالر سے زائد لاگت کی اشیا بناتے اور خدمات سرانجام دیتے ہیں۔
ان قیدیوں میں سے زیادہ تر، یعنی 80 فیصد، جیلوں کو چلانے کا کام کرتے ہیں مثلاً صفائی کرنا، کھانا پکانا، بجلی اور پلمبنگ کا کام کرتے ہیں۔ اس سے انہوں صفر سے 1.24 ڈالر فی گھنٹہ کی اجرت ملتی ہے۔
اس رپورٹ میں مونٹریل کارموش کی بھی کہانی لکھی ہوئی ہے، جو ہر فروخت پر صرف چھ ڈالر کماتے ہیں۔
بیورو آف پرزنز نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو دیئے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ قیدیوں سے یہ کام اس لیے کروائے جاتے ہیں تاکہ وہ کوئی کام سیکھ سکیں اور جیل سے نکلنے کے بعد نوکری ڈھونڈنے میں انہیں آسانی ہو۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2004 میں لگائی گئے ایک تخمینے کے مطابق یہ قیدی تقریباً نو ارب ڈالر مالیت کا کام کرتے ہیں۔
رپورٹ میں الینوائے کی ایک قیدی، لاٹاشیا ملینڈر، کا حوالہ دے کر بتایا گیا ہے کہ “جیل میں جو کام ہم کرتے ہیں اس سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں، اس سے جیلوں کے نظام کو زیادہ فائدہ ہے۔”
ان کا کہنا تھا کہ “میں اپنے کام سے پورے سال میں 450 ڈالر کماتی ہوں۔ اگر یہ کسی عام شخص سے یہ کام کروائیں گے تو یہ رقم انہیں ایک ہفتے کے کام کے عوض دی جائے گی۔”
تقریباً 50 ہزار قیدی وہ اشیا اور خدمات پیش کرتے ہیں جو دیگر حکموتی اداروں کو دی جاتی ہیں مثلاً اسپتالوں کی چادریں دھونا یا سرکاری ملازمین کے یونیفارم بنایا۔
نیشنل پریزن انڈسٹریز اسوسی ایشن کے مطابق سال 2021 میں اس مزدوری کی لاگت دو ارب ڈالر سے زیادہ تھی۔
ان میں سے چند قیدی، پانچ ہزارسے کم، نجی کمپنیوں کے لیے کام کرتے ہیں۔
یہ کمپنیاں دیگر نوکریوں سے زیادہ پیسے دیتی ہیں۔ تام زیادہ تر کمائی حکومت لے لیتی ہے تاکہ اس رقم سے قانونی فیس ادا کی جاسکے۔
رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ قیدیوں کو ان کاموں کی کم ہی ٹریننگ دی جاتی ہیں۔
اپنے بیان میں بیورو آف پریزنز کا کہنا ہے کہ قیدیوں کے ساتھ انسانی سلوک ترجیح ہے۔
تاہم یونیورسٹی آف شکاگو کی کلوڈیا فلورس کے مطابق امریکی جیلوں میں قیدیوں کی صورتحال بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔