جب کراچی کے علاقے مہران ٹآن میں 16 کارکنان زخمی ہوئے تھے، اس وقت ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب نے شہر کی تمام کمرشل اور صنعتی عمارتوں کے معائنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
اس وقت یہ بات سامنے آئی تھی کہ شہر کی کئی عمارتوں کی تعمیر میں قانون کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں نوٹس جاری کیے گئے تھے، جن میں سے ایک چیز ڈیپارٹمنٹ سٹور کو بھی بھیجا گیا تھا۔
سٹور انتظامیہ نے انتباہ کو نظر انداز کیا اور ایک سال بعد وہاں آگ لگ گئی جسے بجھانے میں تین دن لگے۔
گذشتہ سال عمارتوں کے معائنے کے لیے 22 فائر اسٹیشنز سے سروے ٹیمز بھیجی گئی تھیں، جنہوں نے مالکان کو حفاظتی اقدامات کی کمی سے متعلق آگاہ کیا تھا۔
اگر کوئی انتباہ جاری کیا گیا تھا، چیز ڈپارٹمنٹ سٹور انتظامیہ کے پاس اس مسئلے کے حل کے لیے ایک مہینہ تھا۔
سوک سینٹر فائر اسٹشن کے افسر نعیم اختر کا کہنا تھ اکہ “ہم نے چیز کو نوٹس بھیجا لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔”
واضح رہے کہ سٹور سوک سینٹر فائر اسٹیشن کے دائرہ کار میں آتا ہے۔
فائر اسٹیشن نے اس کی اطلاع چیف فائر افسر کو دی تھی، تاہم اس کے بعد اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
فائر بریگیڈ، سول ڈیفنس، کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی ٹیموں اور اسسٹنٹ کمشنرز نے معائنے کیے تھے۔
ہر عمارت کی آگ سے حفاظت کے اقدامات کو چیک کیا گیا تھا۔
فائر بریگیڈ کی سروے ٹیم کے مطابق، زیادہ تر عمارتوں نے احکامات پر عمل نہیں کیا تھا۔
بہت کم ایسی عمارتیں تھیں جن کی انتظامیہ نے اس آگ سے حفاظت کے اقدامات کو یقینی بنایا تھا۔
صدر میں سینکڑوں مارکیٹوں اور دکانوں میں سے صرف ایک فیصد نے حفاظتی اقدامات پر عمل کیا تھا۔
اس مسئلے کی ایک وجہ یہ ہے کہ حکومت سروے اور معائنے کر سکتی ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔
سروے رپورٹس صرف اسسٹنٹ کمشنرز کو جاتی ہیں۔
کراچی کے سینٹرل فائر اسٹیشن کے اسٹیشن افسر عبدلاحد کا کہنا تھا کہ “لوگ اب آگ سے حفاظت کے اقدامات کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں لیکن عمل درآمد اب بھی سست روی کا شکار ہے۔”