برلن: پاکستان نے فنانشل ایکشن ٹاکس فورس (فیٹف) کے تقریباً تمام اہداف پورے کرلیئے ہیں جس کے تحت ملک کے گرے لسٹ سے نکل جانے کے امکانات ہیں۔
فیٹف کا چار روزہ اجلاس 13 سے 17 جون تک جرمن دارلحکومت برلن میں جاری رہے گا۔ تاریخ میں پہلی بار ٹاکس فورس کا اجلاس پیرس میں ہیڈ کوارٹر کے بجائے دوسرے مقام پر ہو رہا ہے، اجلاس میں مختلف ممالک کے گرے لسٹ یا بلیک لسٹ میں رکھنے یا بحال کرنے کے حوالے سے فیصلے کئے جائیں گے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے تقریباً تمام اہداف پورے کر دئے ہیں جس کے تحت ملک کے فیٹف گرے لسٹ سے نکلنے کے امکانات موجود ہیں، حکومت پاکستان کی جانب سے یورپی ممالک کے ساتھ فیٹف کے حوالے سے سفارت کاری میں سنجیدگی دکھائی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیر تجارت نے یورپ کے اہم ممالک کا دورہ کیا انہیں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں پاکستان کے سٹیٹس کے حوالے سے پاکستانی موقف کی تائید کیلئے بات کی جب کہ حکومت کے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ یورپ کے ساتھ بہتر معاشی تعلقات چاہتی ہے۔
اس کے علاوہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے بھی بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے یورپ کے ساتھ اعلیٰ سطح پر رابطے قائم کیے۔
واضح رہے کہ فروری 2022 میں ہونے والے فنانشل ٹاکس فورس کے گزشتہ اجلاس میں پاکستان کے اقدامات کو سراہا گیا جب کہ ایک نکتے کو بہتر کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ فیٹف میں پاکستان کی پوزیشن بہتر ہے، امکانات ہیں کہ 17 جون کو پاکستان کے حوالے سے اچھی خبر سننے کو ملے گی، ملک کیلئے دو آپشن زیرِ غور ہیں جس میں پہلا آپشن ہے کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا جائے جب کہ دوسرا آپشن ہے کہ پاکستان کے اقدامات پر اعتماد کا اظہار کیا جائے۔
ملک کے اقدامات پر اعتماد کا اظہار بھی ممکن ہے جس کے تحت گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے فیٹف اپنا ایک وفد پاکستان بھیجے اور اس کے بعد رواں برس کے اکتوبر میں منعقد ہونے والے اجلاس میں ملک کو اس فہرست سے نکالنے سے متعلق باضابطہ طور پر فیصلہ کیا جائے۔
خیال رہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو جون 2018ء میں گرے لسٹ میں شامل کیا تھا۔ اس فہرست میں ان ممالک کو شامل کیا جاتا ہے، جو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کا نام بار بار گرے لسٹ میں شامل رکھنے سے معیشت کو سرمایہ کاری، برآمدات، کاروبار اور حکومتی اخراجات میں کمی کی مد میں اربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔