محکمہ ٹرانسپورٹ نے سندھ پیپلز انٹرا ڈسٹرکٹ بس سروس کی جدید بسوں کے ٹیسٹ ٹرائل کا آغاز کر دیا ہے۔
صوبائی وزیر اطلاعات، ٹرانسپورٹ اور ماس ٹرانزٹ شرجیل انعام میمن کی قیادت میں ماڈل کالونی سے آواری ٹاور تک بسوں کا ٹرائل کیا گیا۔ صوبائی وزیر محنت سعید غنی، وزیر اعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی وقار مہدی و دیگر بھی اس موقع موجود تھے۔
اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شرجیل میمن نے کہا کہ سندھ حکومت کا کراچی کے شہریوں سے کیا گیا وعدہ پورا ہونے جا رہا ہے، سندھ پیپلز انٹرا ڈسٹرکٹ بس سروس کراچی شہر کے 7 اور 10 بسیں لاڑکانہ شہر کے ایک روٹ پر چلائی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی نیشنل ریڈیو ٹرانسمیشن کمپنی ( این آر ٹی سی) آئندہ بارہ سال تک ان بسوں کو چلائے گی، اس وقت بسوں کی ٹیسٹ ڈرائیو کا آغاز کردیا ہے، انشاءاللہ تعالیٰ جون کے مہینے میں ہی بس سروس کا کراچی اور لاڑکانہ میں آغاز کر دیا جائے گا۔
شرجیل انعام میمن نے کہا کہ عبدالستار ایدھی بی آر ٹی اورنج لائن کی بسیں ڈیپو پر پہنچ گئی ہیں، اس منصوبے کا بھی جلد آغاز کر دیا جائے گا، کراچی کے لئے ماس ٹرانزٹ کی بڑی منصوبہ بندی کی ہے، ہمیں اگر مزید وقت ملا تو کراچی میں اس طرح کے بہترین ٹرانسپورٹ سسٹم کا جال بچھا دیں گے جو شہرِ قائد کے علاوہ سندھ بھر میں پھیلے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے اسی ٹینیور میں ہم اچھی خاصی سفری سہولیات کراچی کے عوام کو مہیا کرسکیں، پیپلز بس سروس کے ٹریک کو جہاں جہاں پر ضرورت ہے وہاں پر بہتر کیا جا رہا ہے جس میں وزیر بلدیات اور کے ایم سی مکمل تعاون کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج ملک کی معاشی صورتحال کا ذمہ دار فرد واحد نا اہل ترین عمران خان ہے جس نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں کوئی ایک انڈسٹری لگائی، کوئی ایک میگا واٹ بجلی پیدا کی اور نہ کوئی فارن انویسٹمنٹ پاکستان میں آسکی البتہ ان کے دور میں قرضے زیادہ سے زیادہ لئے گئے۔
صوبائی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ دو تین بار پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں گرائی گئیں لیکن کبھی کسی نے ملک تھوڑنے کی بات نہیں کی اور اگر یہی گفتگو کوئی اور شخص کرتا تو ابھی اس پر غداری کا اسٹیمپ لگ چکا ہوتا۔
اس موقع صوبائی وزیر محنت سعید غنی نے کہا کہ آئندہ بجٹ میں حکومت سندھ عوام کو ریلیف دے سکے گی، ممکن ہے حکومت تنخواہوں میں اضافہ اور اپنے اخراجات کم کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ دو سے چار ماہ مشکل ہیں، ایسی ایسی امید نہیں رکھنی چاہئے کہ بجٹ میں دودھ کی نہریں بہیں گی۔