اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے پنجاب اسمبلی کی مخصوص نشستوں پر نوٹیفکیشن سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا، جو آج ہی سنایا جائے گا۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی زیر صدارت 5 رکنی کمیشن نے تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کی درخواستوں پر سماعت کی۔
پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری نے دلائل میں کہا کہ آرٹیکل 224 (6) کے تحت کمیشن نے نوٹیفکیشن جاری کرنا ہے، آرٹیکل 106 کے تحت مخصوص نشستوں پر نامزدگی کی جاتی ہے۔
ممبر کمیشن اکرام اللہ خان نے کہا کہ آئین کی کتاب میں تو کچھ اور لکھا ہے، جس پر وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت رکن نااہل ہونے کی صورت میں اسی پارٹی کے رکن کو تعینات کرنا ضروری ہے، الیکشن ایکٹ کے تحت مخصوص نشستوں کے ارکان میں کوئی ردوبدل نہیں کیا جاسکتا۔
ممبر شاہ محمد جتوئی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیئے ہیں تو کیا کمیشن اسی پارٹی کے رکن کو نوٹیفائی کرے گا؟ کیا موجودہ الیکٹورل کالج کی بنیاد پر نوٹیفکیشن کریں؟ ۔
ن لیگ کے وکیل خالد اسحاق نے مؤقف اپنایا کہ صرف آرٹیکل 226 کو بنیاد بنانا درست نہیں، مخصوص نشستوں کیلئے الیکٹورل کالج مکمل نہیں ہے، جس کے باعث آرٹیکل 226 لاگو ہی نہیں ہوتا، مخصوص نشستںں کسی کو تحفہ نہیں ہوتی، پی ٹی آئی اور ن لیگ کی نشستوں کے تناسب سے مخصوص نشستوں پر نوٹیفکیشن کیا جائے۔
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے دلائل میں کہا اس کیس کے فیصلے کے دوررس نتائج ہوں گے، آئین کی کسی شق کو انفرادی حیثیت میں نہیں پڑھا جاسکتا، اگر اسمبلی میں پارٹی نشستںت کم ہوں گی تو مخصوص نشستیں بھی کم ہوں گی، ضمنی الیکشن کے بعد مخصوص نشستوں پر ارکان کو نوٹیفائی کیا جائے۔
ایڈووکٹ جنرل پنجاب پرویز شوکت نے کہا کہ خالی نشستوں کی بنیاد پر پی ٹی آئی کو کیسے مخصوص نشستیں دی جاسکتی ہیں؟۔
ممبر بابر حسن بھروانہ نے کہا کہ کیا 20 جنرل نشستیں خالی ہوتیں تو 5 مخصوص نشستوں پر ارکان کو ہٹادیا جاتا؟ ۔
ممبر نثار درانی نے کہا کہ کیسے ابھی سے فیصلہ کرسکتے ہیں کہ ایک ہی جماعت تمام ضمنی نشستیں جیت کرآئے گی، ہم ایک جماعت کے ارکان نوٹیفائی کردیں، ضمنی انتخابات میں وہ جماعت تمام نشستیں ہار جائے، ایسی صورت میں مخصوص نشستوں پر تعینات ارکان کی کیا حیثیت ہوگی؟ ۔
بعدازاں الیکشن کمیشن نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا، جو آج ہی سنایا جائے گا۔