کراچی: ایک وقت تھا کہ گلی کا کونا ہو یا کوئی کیفے، وہاں موجود نوجوانوں میں سے بیشتر کے ہاتھ میں سگریٹ نظر آتی تھی مگر اب وقت بدل رہا ہے اور ماچس یا لائٹر سے جلنے والی سگریٹ کی جگہ الیکٹرانگ سگریٹ نے لے لی ہے۔
ای سگریٹ کا استعمال ابھی اتنا عام نہیں ہوا جتنا سگریٹ کا ہے۔
تاہم اگر آپ کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں کا رخ کریں، تو آپ کو کچھ نوجوانوں کے ہاتھوں میں سگریٹ کے بجائے ای سگریٹ ضرور نظر آئے گی۔
ای سگریٹ پینے والے نوجوانوں کا ماننا ہے کہ اس کے عام سگریٹ کی نہ نسبت کم نقصانات ہوتے ہیں جبکہ عام لوگوں میں بھی یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ اگر وہ ای سگریٹ استعمال کریں گے، تو ان کے لیے سگریٹ چھوڑنا آسان ہوگا۔
حمزہ علی کشمیری نامی نوجوان نے آج نیوز کو بتایا کہ وہ گذشتہ پانچ سال سے ای سگریٹ کا استعمال کرہے ہیں، انہوں نے واضح کیا کہ وہ ای سگریٹ پی کر خود کو ہیرو جیسا محسوس کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ ذائقے کی تبدیلی کے لیے ای سگریٹ پر پیسے خرچ کرتے ہیں، جو تقریباً 15 سو روپے کے قریب ہوتی ہے۔
الیکٹرانک سگریٹ کیا ہوتی ہے؟
الیکٹرانک سگریٹ ایک بیٹری سے چلنے والا آلہ ہے، جس میں مصنوعی ذائقہ موجود ہوتا ہے، جس کو سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں داخل کرنے کے بعد خارج کردیا جاتا ہے۔
عام طور پر سگریٹ میں جو محلول ہوتا ہے، اس میں نیکوٹین کی مقدار شامل ہوتی ہے۔ اس کا مقصد تمباکو کے دھوئیں کے بغیر دھوئیں کے سانس لینے کا احساس فراہم کرنا ہے۔
کیا ای سگریٹ سے دل کی بیماریاں ہوسکتی ہیں؟
لیکن طبی ماہرین کا اس بارے میں کچھ اور ماننا ہے۔ ڈاکٹر رِجا آفاق کا کہنا ہے کہ ای سگریٹ صحت کے سنگین خطرات کا باعث بنتی ہے، جن میں ڈپریشن، پھیپھڑوں کی بیماری اور فالج کا خطرہ شامل ہے۔
آج نیوز سے گفتگو میں سول ہسپتال کراچی کی ہاؤس آفیسر ڈاکٹر رِجا آفاق نے بتایا کہ جو لوگ ای سگریٹ کا استعمال کرتے ہیں، ان میں فالج کا خطرہ 71 فیصد اور دل کی بیماری کا خطرہ 40 فیصد بڑھ جاتا ہے بہ نسبت ان افراد کے جو ای سگریٹ کا استعمال نہیں کرتے ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ ای سگریٹ دل کی شریانوں کی سختی اور قلبی نظام کو نقصان پہنچا سکتی ہے جبکہ دل کے دورے کے امکانات کو 42 فیصد تک بڑھا سکتی ہے۔
آج نیوز نے ایک اور نوجوان سے رابطہ کیا، تو اس نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ای سگریٹ کا استعمال اس لیے بھی کیا جاتا ہے، کہ اس میں تمباکو کی بدبو نہیں آتی۔ “اس لیے اسے ہم عوامی مقامات پر بھی باآسانی پی سکتے ہیں۔”
جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا وہ سگریٹ نوشی کرتے ہیں یا نہیں، تو انہوں نے اس کا جواب دینے سے انکار کردیا۔ لیکن کہا کہ اس کو پینے سے نقصان تو ہوتے ہیں کیونکہ عام سگریٹ کی طرح ای سگریٹ میں بھی نکوٹین کی مقدار ہوتی ہے، جو انسانی صحت کے لیے مضر ہے۔
ای سگریٹ کا استعمال منہ کے کینسر کی اہم وجہ ہے
کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج میں ہاؤس آفیسر کی خدمات انجام دینے والی ڈاکٹر پنکی بھوجانی نے آج نیوز کو بتایا کہ ای سگریٹ کا استعمال منہ کی صفائی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، جو مسوڑھوں کی بیماری کا باعث بن سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سگریٹ نوشی بالخصوص ای سگریٹ کا استعمال منہ کی جملہ بیماریوں کی جڑ ہے، جس کے سبب مسوڑھے کمزور ہوجاتے ہیں، جس کے باعث مسوڑھوں میں جلن اور خون بہنے کی شکايت ہوتی ہے۔
ڈاکٹر پنکی بھوجانی نے خبردار کیا کہ ای سگریٹ سمیت کسی بھی قسم کی سگريٹ نوشی منہ کی بدبو کا سبب بن سکتی ہے جبکہ یہ عادت منہ کے کینسر کی اہم وجہ ہے۔
ای سگریٹ کی ورائیٹیز
مارکیٹ میں جا کر دیکھا جائے، تو پتہ چلتا ہے کہ ای سگریٹ کسی نئی ٹیکنالوجی سے کم نہیں کیونکہ اس کے مختلف ماڈلز دستیاب ہیں۔
آج نیوز کے اصرار کرنے پر کمیل عباس نامی نوجوان نے بتایا کہ وہ گذشتہ ایک سال سے ای سگریٹ پی رہے ہیں، انہوں نے کہا ای سگریٹ کو “پوڈ” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، جو قلم کی طرح لمبی نہیں ہوتی بلکہ ڈبیا کے جیسی ہوتی ہے۔
کمیل کا کہنا تھا کہ عموماً لوگ ایسا مانتے ہیں کہ وہ ای سگریٹ پی کر سگریٹ کی عادت کو ختم کرسکتے ہیں کیونکہ عام سگریٹ میں ایک مخصوص مقدار میں نکوٹین جسم میں داخل ہوتا ہے جبکہ ای سگریٹ میں آپ نکوٹین کی مقدار کو کم اور زیادہ بھی کرسکتے ہیں۔
“نیکوٹین تو دونوں میں ہی ہوتا ہے”
اس بارے میں ڈاکٹر مدیحہ عارف کا کہنا تھا کہ سگریٹ میں تمباکو کو جلا کر نکوٹین ملتا ہے، جو بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔ جبکہ ای سگریٹ میں مائع (لیکویئڈ فلیور) ہوتا ہے، جسے تھوڑا سا جلا کر نیکوٹین مل سکتا ہے، جو کہ عام سگریٹ سے کم نقصاندہ ہوتا ہے۔
لیکن انہوں نے بتایا کہ دونوں میں نیکوٹین تو ہوتا ہی ہے، جس کی لت لگ سکتی ہے اسی لیے دونوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔
ڈاکٹر مدیحہ عارف لاہور میں ری ہیب کیئر پولی کلینک نامی ایک نجی طبی مرکز میں گذشتہ کئی برسوں سے فزیو تھراپسٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دیے رہی ہیں۔
آج نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے پھیپھڑوں کے مسائل کا شکار بہت سے مریضوں کا “کپنگ تھراپی” سے علاج کیا ہے، جو سانس کی روانی کو بحال کرنے کے ساتھ ہی سانس لینے میں دشواری کو ختم کرتا ہے۔