پاک افغان ایشو پر جاری ایک ڈائیلاگ کے دوران بات کرتے کرتے کابل سے تعلق رکھنے والی کلثوم (ان کی جان کے تحفظ کے لئے خواتین کے فرضی نام استعمال کئے جا رہے ہیں ) ایک دم چیخنے لگیں۔
ہمارے ساتھ کیا ہوا ہم کہاں جائیں ہم کیا کریں
کلثوم کے اس ردعمل پر میرے سامنے کی رو میں بیٹھی ہر افغان لڑکی کی آنکھوں سے آنسوں جھلک پڑے۔ ایک درد تھا جو ان کی کہی گئی باتوں اور کئے گئے سوالوں میں پنہاں تھا، جو بحثیت خاتون میں محسوس کر سکتی تھی۔
جب کھلے آسمان میں پرواز کرتے پرندوں کے پر کاٹ کر انھیں پنجرے میں بند کر دیا جائے، تو گھٹن کا احساس آپ کی روح تک کو چیر کر رکھ دیتا ہے اور یہ ہی حال اس وقت درجن بھر سے زائد خواتین کا بھی تھا، جو اس تقریب میں موجود تھیں۔
کلثوم سے جب میں نے بات کی تو انہوں نے اپنا دل کھول کر میرے سامنے رکھ دیا۔
افغان طالبان کے ہاتھوں یرغمال بنائے جانے اور 16روز تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والی خواتین میں سے ایک کلثوم بھی تھیں۔ کلثوم نے بتایا کہ انہیں 15 اگست کا وہ دن اچھی طرح یاد ہے کہ جب وہ اسکول میں اپنی کلاس میں موجود تھیں جہاں وہ نو سال سال سے بطور ٹیچر ملازمت کر رہی تھیں کہ اچانک چند طالبان اسکول میں داخل ہوئے اور انھوں نے اسکول بند کر کے سب کو گھر جانے کا حکم دے دیا۔
اور پھر آج تک وہ سکول دوبارہ نہ کھل سکا۔
کلثوم کے مطابق وہ ایک استاد اور سول سوسائٹی ایکٹیوسٹ کے طور پر کئی سالوں سے کام کر رہی تھیں اس لئے جب طالبان نے خواتین کے گھروں سے نکلنے پر پابندی لگائی تو انھوں نے اس کو ماننے سے انکار کر دیا جس کے خلاف انھوں نے کئی مظاہرے کئے۔ اسی جدو جہد کی پاداش میں ایک روز طالبان نے انہیں ان کے شوہر اور دو بچوں سمیت گرفتار کر لیا۔
طالبان کی قید میں گزارے گئے 16 روز کی داستان سناتے سناتے کئی بار کلثوم کی آنکھیں اشق بار ہوئیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ہر روز ان کے شوہر پر تشدد کرتے اور خواتین کو فاحشہ ،کتیا اور ایجنٹ کے نام سے نفرت بھرے لہجے میں پکارتے۔
"ہمیں شروع میں چار روز تک بھوکا رکھا گیا اور مسلسل خوف کے ماحول میں غلط الفاظ سے بار بار پکارا جاتا تھا۔"
کلثوم نے بتایا کہ "انھوں نے میرے شوہر کو کئی بار کرنٹ لگا کر بھی اذیت دی۔"
انہوں نے جب اپنے شوہر اور بیٹی کا ذکر کیا تو ان کی آنکھیں جیسے پتھرا گئیں اور وہ ایک دم چپ ہو گئیں، پھر ایک لمبے وقفے کے بعد وہ بولیں "تمھیں پتہ ہے ہر روز یہی لگتا تھا کہ آج زندگی کا آخری دن ہے۔"
ٓآپ کے اور ان کے درمیان کوئی گفتگو ہوتی تھی، وہ کیا کہتے کیا تھے؟
میرے اس سوال پر کلثوم نے بتایا کہ "جب ہم ان سے پوچھتے کہ ہمارا قصور کیا ہے تو وہ بولتے کہ تم عورتیں پردہ نہیں کرتیں اور دوسرے ملکوں کی ایجنٹ ہو، تم عورتوں کی وجہ سے دنیا ہمیں تسلیم نہیں کر رہی ہے۔"
جب ہم ان کو دوسرے اسلامی ممالک جیسے پاکستان، ملائشیا اور ترکی کی مثال دیتے کہ وہاں بھی خواتین کو حقوق حاصل ہیں تو وہ کہتے کہ وہ کافر ملک ہیں، کافروں کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہیں۔ "انھوں نے میرے دو موبائل صرف اس وجہ سے توڑ دئیے کہ اس میں میری بغیر دوپٹے کی تصاویر تھیں۔"
کلثوم نے بتایا کہ انھوں نے مزار شریف میں ان کی تین ساتھیوں کو قتل بھی کیا۔
تو پھر رہائی کیسے ملی؟
میرے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ایک ساتھ 29 خواتین کے اغوا کی خبر پوری دنیا میں پھیل گئی جس کی وجہ سے طالبان حکومت پر اور بھی دباﺅ پڑ ا۔
"اور آخر کابل حکومت کے حکم پر طالبان نے ہم سے تحریری طور پر یہ کمٹمنٹ لی کہ ہم آئیندہ کسی مظاہرے یا احتجاج کا حصہ نہیں بنیں گے اور خاموشی سے اپنے گھر میں رہیں گے۔ انھوں نے ہمارے سوشل میڈیا اور ہر قسم کے رابطے بند کر دیئے۔
کلثوم نے بتایا کہ "میں نے لکھ کر دے تو دیا لیکن خاموش بیٹھنا میرے بس کی بات نہ تھی۔ میں نے ایک آرٹیکل کے ذریعے طالبان کے سامنے کچھ سوال رکھے اور ان کے غیر انسانی سلوک کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا جس کے بعد افغانستان میں رہنا میرے لئے ممکن نہ رہا اور مجھے کابل چھوڑنا پڑا۔"
کلثوم کے مطابق وہ روز کسی ڈراونے خواب سے کم نہ تھا کہ جب کلثوم اپنے چھوٹے سے بیٹے کے ساتھ پناہ کی تلاش میں اپنے لوگ اور علاقہ چھوڑ کر آرہی تھیں، پیچھے آنے والی ہر گاڑی پر گمان ہوتا تھا کہ بس اب پکڑے گئے۔ "لیکن شایدکچھ سانسیں باقی تھیں اس لئے بچ کر نکل آئی۔"
کلثوم کی باتیں اور حالت اس بات کا ثبوت نظر آئیں کہ وہ شدید ذہنی دباو کا شکار ہیں اور ہوتی بھی کیسے نہ جب آپکی فیملی اسی ماحول میں ان لوگوں کے رحم و کرم پر ہو جن سے رحم کی توقع مشکل ہو تو ذہنی سکون کہاں ممکن ہے۔
تاجک کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی ایک اور خاتون رحیمہ بھی ان خواتین میں شامل تھی جن کو طالبان نے یرغمال بنایا۔
رحمیہ بھی اپنے اس سفر کے رائیگاں جانے پر افسردہ تھیں جو انھوں نے ایک سے ڈیڑھ دہائی کی محنت سے طے کیا۔
انہیں طالبان کا پہلا دور بھی یاد تھا، جب وہ پرائمری سکول میں پڑھتی تھیں اور کیسے ان کی ماں حالات کی سنگینی اور دربدر ہونے کی وجہ سے دل کے عارضے میں مبتلا ہو کر چل بسیں۔
رحیمہ کے لئے ایک بار پھر یہ سفر طے کرنا بہت مشکل تھا۔ اس لئے انہوں نے بغاوت کی لیکن طالبان کو یہ بغاوت پسند نہ آئی اور انہیں بھی یرغمال بنالیا گیا۔
رحمیہ کو بھی لگتا تھا کہ سب ختم ہو گیا اور طالبان انہیں مار دیں گے جیسے کہ ان کی 3 ساتھیوں کو مار دیا تھا۔ لیکن پھر ایک روز ان کو رہائی مل گئی اور اب وہ اپنوں سے دور ایک محفوظ مقام پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
افغانستان میں ہمارے لیے کوئی امید یا مستقبل نہیں
اس کے علاوہ 2016 سے خواتین کے حقوق اور آزاد صحافت کی کارکن اور وکیل کے طور پر کام کرنے والی ملالئے بھی اس گروپ کا حصہ تھیں جن کو طالبان نے اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے کی پاداش میں یرغمال بنایا تھا۔
ملالئے کے مطابق وہ اور ان کی ساتھی خواتین کا گناہ صرف اتنا تھا کہ وہ افغان خواتین اور لڑکیوں کے لیے ایک بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر کے حصول کی جدوجہد کر رہی تھیں۔
لیکن اگست 2021 میں جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو سب ختم ہو گیا اور عورتوں اور بچیوں کو گھروں میں بند کر دیا گیا۔
تاہم خواتین نے طالبان کی جانب سے عالمی اداروں کو فراہم کئے گئے جھوٹے وعدوں پر یقین نہیں کیا اور کابل میں سڑکوں پر احتجاج شروع کیا اور طالبان کے سامنے افغان خواتین کی آزادی اور بنیادی حقوق کا احترام کرنے کا مطالبہ کیا۔
لیکن طالبان کی طرف سے مظاہرین کو مارا پیٹا گیا، کیمیکل اور کالی مرچ کے اسپرے کئے گئے اور بندوق کی نوک پر دھمکیاں دی گئیں۔
مظاہرے کے بعد بھی مسلسل براہ راست دھمکیاں دی گئیں اور مارا پیٹا گیا، ہراساں کیا گیا، پیچھا کیا گیا۔
ملالئے نے بتایا کہ "میری ایکٹوزم کی وجہ سے میرے شوہر کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔"
ان کا کہنا تھا کہ "افغانستان میں ہمارے لیے کوئی امید یا مستقبل نہیں، صرف گرفتاری، تشدد اور موت ہے۔"