اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کارکنان کوغیرضروری ہراساں کرنے سے روکتے ہوئے آئی جی اسلام آباد، چیف کمشنر اور ڈپٹی کمشنراسلام آباد کو نوٹس جاری کردیئے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے تحریک انصاف کی گرفتاریوں اور راستوں کی بندش کیخلاف درخواست پر سماعت کی، پی ٹی آئی وکیل نے چھاپوں اور گرفتاریوں کا معاملہ اٹھایا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے وضع کردہ اصولوں کے مطابق احتجاج آئینی حق ہے، یہ عدالت محض خدشے کے پیش نظرحکم جاری نہیں کرسکتی، اسلام آباد میں بے لگام احتجاج کی اجازت نہیں دی جاسکتی، احتجاج کی آڑ میں اگرکوئی شرپسند آجائیں تو کیسے نمٹیں گے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ پتہ نہیں پولیس کو کون ہدایات دیتا ہے کیا پی ٹی آئی بیان حلفی دے سکتی ہے کہ احتجاج کے دوران قانون نہیں توڑا جائے گا؟۔
بیرسٹرعلی ظفرنے مزید دلائل دیئے تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس عدالت نے 2014 کا آرڈردیا تھا جس کے بعد پی ٹی وی اور پارلیمنٹ پر حملہ ہوا، یہ نہیں کہہ رہے کہ تحریک انصاف نے ایسا کیا مگر کیا واقعے سے انکار کیا جا سکتا ہے؟ عدالتی حکم کے بعد اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ ۔
تحریک انصاف کے وکیل نے گرفتاریاں روکنے کے حکم کی استدعا کرتے ہوئے بتایا کہ 25 مئی کو ریلی کیلئے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو درخواست دے دی ہے۔
عدالت نے پی ٹی آئی کارکنوں کوہراساں کرنے سے روکنے کے احکامات دیتے ہوئے سماعت 27 مئی تک ملتوی کردی۔