اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کی رہنماء اور سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری کی فوری رہائی اور گرفتاری کے معاملے پر جوڈیشل انکوائری کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے شیریں مزاری کی بازیابی کیلئے دائر درخواست پر سماعت کی۔
سماعت شروع ہوتے ہی شیریں مزاری نے عدالت سے استدعا کی کہ میں بات کرنا چاہتی ہوں، میرا راستہ روکا گیا، تشدد کیا گیا، مجھے گاڑی سے گھسیٹ کر نکالا۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ جبری گمشدگیوں کے معاملے پر یہ عدالت کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔
شیریں مزاری نے کہا کہ مجھے موٹروے پر لے گئے اور کبھی کہا راجن پور جائیں گے ، کبھی کہا لاہور جائیں گے، پولیس کے ساتھ سادہ کپڑوں میں بھی لوگ تھے، میں 70 سالہ ہوں بیمار ہوں، پھر بھی تشدد کیا گیا ، میرا موبائل فون چھین لیا گیا ابھی تک واپس نہیں دیا گیا۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ کلرکہار سے مجھے واپس اسلام آباد لایا گیا، میرے بیگ کو کھول کر مکمل چیک کیا گیا،اسلام آباد پولیس بھی تشدد کی مکمل ذمہ دار ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ کیا گرفتاری اسپیکر کی اجازت سے ہوئی، یہ عدالت صرف آئین اور قانون کو دیکھے گی، کس قانون کے تحت گرفتاری کی گئی، کیا ڈپٹی اسپیکر کی اجازت کے بغیر کوئی دوسرے صوبے سے آسکتا ہے، کیا عدالت چیف کمشنر کو توہنر عدالت کا نوٹس جاری کرے، مطیع اللہ جان کے کیس کی آج تک تفتیش نہیں ہوئی، ذمہ داران کا تعین کرنا ہوگا۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اس معاملے کی کون انکوائری کرے گا، ایمان مزاری نے عدالت سے استدعا کی کہ اس معاملے کی عدالتی تحقیقات کرائی جائیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ جب آئین کا احترام نہیں ہوتا تو ایسے واقعات رونما ہوں گے، ہر حکومت کا آئینی خلاف ورزیوں پر افسوسناک رویہ ہوتا تھا، افسوس کی بات ہے کہ کسی حکومت نے جبری گمشدگیوں پر کوئی ایکشن نہیں لیا، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی کو پتہ ہی نہیں تھا کہ شیریں مزاری کو کیسے اٹھایا گیا۔
آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ میں نے آج ہی چارج لیا، واقعہ پہلے ہوچکا تھا جبکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت کو واقعے کا علم ہی نہیں تھا ، عدالت جو حکم دے گی ہم عمل کریں گے، ہم عدالت کے مشکور ہیں کہ عدالت نے رات اس پہر سماعت کی، سانسی جماعت کو اب یہ ماننا پڑے گا کہ عدالت رات کو آئینی تحفظ کیلئے موجود ہے، جیسے ہی اس بات کا پتہ چلا تو ان کی فوری رہائی کے احکامات جاری کئے گئے۔
جس پر چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اگر کسی کیس میں گرفتاری عمل میں لائی گئی تو رہائی کا حکم کیسے دیا گیا؟۔
ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ شیریں مزاری استعفی دے چکی ہیں اس لئے اسپیکر سے اجازت نہیں لی۔
جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ وہ بے شک استعفیٰ دے چکی ہوں، مگر انہیں ڈی نوٹیفائی نہیں کیا گیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ماضی مں بھی ارکان اسمبلی کو گرفتار کیا گیا جو آج بھی کسٹڈی میں ہیں، پولیٹیکل لیڈر شپ کو بٹھا کر سوچنا چاہیئے، آئین کا احترام نہیں ہوگا تو یہ سب چلتا رہے گا، عدالت ایمان مزاری کی بہت عزت کرتی ہے، وہ عدالت میں انسانی حقوق کے کیسز لے کر آتی ہیں، ایمان مزاری آج یقینا بہت ایموشنل ہوں گی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے شیریں مزاری کی گرفتاری پر وفاقی حکومت کو جوڈیشل انکوائری کرانے کا حکم دیتے ہوے نہیں فوری رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو ہدایت دی کہ آئی جی اسلام آباد شیریں مزاری کو گھر تک پہنچائیں اور شیریں مزاری کو گھر میں بھی سیکیورٹی فراہم کریں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے شیریں مزاری کا موبائل فون و دیگر چیزیں واپس کرنے کا حکم جاری کیا۔
عدالت نے وفاقی حکومت کو شیریں مزاری کی گرفتاری پر ٹی او آرز بنا کر عدالت میں پیش کرنے کا حکم بھی دیا، بعد ازاں کیس کی سماعت 25 مئی تک ملتوی کردی گئی۔