پاکستان کے سابق وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کی واپسی ہوئی ہے جس کے بعد ان کا نام نگراں وزیر اعظم کی فہرست میں شامل ہونے کی افواہیں گردش کر رہی ہیں۔
منگل کو امریکہ سے واپسی پر، کراچی ایئرپورٹ پر سادہ لباس اہلکاروں نے ان کا غیر معمولی پروٹوکول کے ساتھ استقبال کیا۔ اس سے قبل سندھ ہائی کورٹ نے انہیں نیب کیس سے منسلک 10 دن کی حفاظتی ضمانت دی تھی۔
آج نیوز کراچی کے بیورو چیف رفعت سعید نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، “وہ ہمیشہ نظریہِ ضرورت کی بنیاد پر ایک ٹیکنوکریٹ کے طور پر ہمیشہ اپنی جگہ بنا لیتے ہیں۔”
ٹیکنوکریٹس سیاست دانوں کے برعکس عوام کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتے، اس لیے اگر حفیظ شیخ نگراں وزیر اعظم بنتے ہیں تو انہیں جرات مندانہ، غیر مقبول فیصلے کرنے کی آزادی ہوگی جن کی پاکستان کے معاشی بحران میں اشد ضرورت ہے۔
ڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ عالمی شہرت کے حامل ماہر معاشیات ہیں اور اس سے قبل سرکاری عہدئے بھی رکھ چکے ہیں۔ انہوں نے 21 - 2020 میں پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت میں وفاقی وزیر برائے خزانہ اور محصولات کے امور کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ اسی محکمہ میں 20 - 2019 کے دوران سابق وزیر اعظم عمران خان کے مشیر بھی رہ چکے ہیں۔
انہوں نے 2003 اور 2004 کے دوران سینیٹر اور 2010 سے 2013 تک وزیر خزانہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔
2013 کے انتخابات کے لیے بھی نگراں وزیر اعظم کے لیے پی پی پی حکومت کے تین نامزد امیدواروں کی فہرست میں شیخ ایک مقبول نام تھے۔
سعید نے کہا کہ “میں انھیں کافی عرصے سے دیکھ رہا ہوں۔ وہ جس پارٹی میں چاہیں شامل ہو جاتے ہیں۔”
سیاست میں شیخ کے خاندانی پس منظر کی وضاحت کرتے ہوئے، سعید نے کہا کہ ان کا نسب الٰہی بخش سومرو سے جا ملتا ہے، جو ایک سینئر سیاستدان ہیں اور جنہوں نے قومی اسمبلی کے 16ویں اسپیکر کے طور پر اپنی خدمات انجام دیں۔ “سومرو قبیلہ سندھ کے طاقتور سیاسی خاندانوں میں سے ایک ہے اور یہیں سے انھیں اپنی سیاسی حمایت حاصل ہے۔”
ان کے پاس 297 ملین روپے سے زیادہ کے اثاثے ہیں، جو انہوں نے سرکاری عہدہ رکھنے کے عوض ظاہر کیے تھے۔ لیکن شاید شیخ کی شہرت کی سب سے بڑی وجہ، اور بعض حلقوں میں شکوک و شبہات کا نتیجہ، ان کا ورلڈ بینک کے ساتھ کام کرنے کا ٹریک ریکارڈ ہے۔
سعید نے کہا کہ “یہ پہلی بار ہے کہ ان پر نیب کیس بنایا گیا ہے۔ تاہم، انہیں اس میں 10 دن کے لیے ضمانت بھی دی گئی ہے۔”
“وہ جس طرح سے واپس آئے ہیں اور جس طرح ان کی آمد کے لیے راہ ہموار کی گئ ہے اس سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں کسی مقصد کے تحت لایا گیا ہے۔” رفعت سعید کے مطابق سابق نگراں وزیراعظم معین قریشی کو بھی اس ہی طرح لایا گیا تھا۔
جب نگران حکومت کی بات آتی ہے تو شیخ جیسے لوگ اپنے مختلف فریقین سے جیسےپی ٹی آئی، پی پی پی اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ قریبی روابط کی وجہ سے نمایاں ہوتے ہیں۔
سعید نے مزید کہا کہ “تاہم، یہ ان کے لیے دو دھاری تلوار بھی ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ حال ہی میں پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ ان کی قربت کا مطلب ہے کہ مسلم لیگ ن ان کے نام کو مسترد کر سکتی ہے۔”
پاکستان کی سیاست میں ٹیکنو کریٹز کو متعارف کرانے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ انہیں سینیٹر منتخب کرایا جائے۔ شیخ سینیٹر بھی رہ چکے ہیں۔
ابھی تک مزید کوئی نام سامنے نہیں آئے ہیں لیکن سابق وزیر داخلہ شیخ رشید نے بدھ کے روز دعویٰ کیا کہ نگراں وزیراعظم کی نشست کے لیے ماہرین اقتصادیات کے انٹرویوز “اسلام آباد اور راولپنڈی میں کیے جا رہے ہیں۔”
سعید کا خیال تھا کہ نگراں وزیراعظم کے لیے ایک غیر متنازعہ نام کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق، حتمی فیصلہ عام طور پر مرکزی سیاسی جماعتوں کے کسی ایک نام پر متفق ہونے کے بعد کیا جاتا ہے۔