چار ماہ قبل یوکرین کے چھوٹے سے علاقے بیکمت میں واقع ہسپتال کے ڈاکٹروں اور رزاکاروں کو توقع نہیں تھی کہ ایک وقت آئے گا جب وہاں ایمبولینس کی قطاریں لگ جائیں گی۔
روسی نژاد کینیڈیئن الینا بلاختینا، جو کہ جنگ میں زخمی ہونے والوں کو طبی امداد فراہم کرتی ہیں، کا کہنا تھا کہ ’میں نے پہلے اس پیمانے پر (بڑا) سانحہ نہیں دیکھا۔‘
ہسپتال کا اصل کام لاہانسک میں پوپاسنا کے علاقے میں جنگ کے دوران زخمی ہونے والوں کی حالت ’بہتر کرنا‘ ہے تاکہ انہیں مغربی یوکرین کے بڑے ہسپتالوں تک لے جایا جا سکے، جو کہ جنگ کے میدان سے کافی دور ہے۔
’کوئی بھی روسی فیس بک استعمال کرنے کے علاوہ یوکرین کی مدد کرنے کچھ کر سکتا ہے اسے کرنا چاہیے۔‘
الینا بلاختینا کے پاس کینیڈا کا پاسپورٹ ہے، جس کا مطلب ہے وہ یوکرین میں داخل ہوسکتی ہیں، جو وہ روسی قومیت رکھتے ہوئے نہیں کر سکتی تھیں۔
یوکرین میں تباہ کاریاں اس حد تک بڑھ رہی ہیں کہ اب لوگوں کی مدد کرنے کے لیے وسائل میں کمی ہورہی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ہسپتالوں میں پہنچنے والی کچھ ایمبولینس جرمنی یا پولینڈ کی استعمال شدہ ہیں۔
بیکمت کے اس ہسپتال میں ایک لکڑی کا دروازہ بھی دیکھا گیا جسے سٹریچر کے طور پر استعمال کیا ہوا تھا اور اس پر خون کے نشانات موجود تھے۔
فروری میں روس کے حملوں کے آغاز کے کچھ دنوں بعد جنگ میں حصہ لینے والے ایک فوجی، آئیگور، کا کہنا تھا ’ہم جہنم سے آئے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا ’انہوں نے ہم پر ہر چیز سے حملہ کیا جہاز، توپ، دن اور رات ہر جگہ سے شیلنگ ہو رہی تھی۔ ہم چھ دن تک جنگ میں تھے۔ پوپاسنا مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔‘
واضح رہے کہ 24 فروری جو روس نے یوکرین میں ہزاروں فوجی بھیجے تھے، جسے اس نے ’خاص آپریشن‘ کا نام دیا تھا۔
بیکمت سے 70 کلومیٹر کی مسافت پر موجود ایک 20 برس کی رزاکار ایلکسانڈرا پوہرانچنا کے پاس مریضوں کے لیے ایمبولنس تک نہیں تھی۔
وہ واحد پیرامیڈک ہیں جو اپنے یونٹ میں کام کر رہی ہیں۔
’میں نے مدد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہمیں یہ کرنا ہوگا۔‘
مغربی یوکرین میں ان کے اہلِ خانہ نے انہیں ذاتی حفاظت کا سامان لینے کے لیے رقم دی ہے۔ تاہم ان کی والدہ ان سے بات ہیں کر رہیں۔