تحریر: مبشر حسین
حالات حاضرہ کو دیکھ کر کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارا ملک کس طرف بڑھ رہا ہے، کبھی ہم خانہ جنگی کی طرف بڑھتے نظر آتے ہیں، کبھی سننے میں آیا کہ ہمارا ملک دیوالیہ ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے۔
ایسی اور اس جیسی بہت سی بازگشت ہمارے ماحول میں سننے کو اور دیکھنے کو مل رہی ہیں لیکن اس بات کا نہ تو کوئی اندازہ لگا سکتا ہے نہ کوئی حقیقت دیکھ سکتا ہے کہ آخر ہونے کیا جا رہا ہے۔
اب بات اس امر کے سمجھنے کی ہے آخر ان تمام معاملات سے نکلنے کا حل ہے کیا۔ کیا وجہ ہے کہ ہمارا ملک اس دہانے پرلا کھڑا کر دیا گیا، بحیثیت سیاست کا طالبعلم، اور بحیثیت جرنلزم کا طالبعلم اگر ان تمام مسائل کا حل تلاش کرنا چاہوں تو یقیناً میرے لیے مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو سکتا ہے اور حالات کی گتھی ہے کہ سلجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
ہم جس ملک میں رہتے ہیں یہ خداداد ملت پاکستان ایک ایسا اسلامی جمہوریہ پاکستان جس پر جمہوریت کم آمریت کا دور زیادہ رہا، کچھ ستم وظلم اس ملک کے ساتھ جمہوری سیاسی دعویداروں نے کیے تو کچھ ظلم و ستم وردی کے پہریداروں نے آمریت مسلط کر کے کیے۔
ایک بات تو طے ہے کہ کسی بھی ملک میں آمریت سے سو گناء بہترجمہوریت ہے چاہے وہ بدترین ہی کیوں نہ ہو۔جمہوریت میں آپ کے پاس اخلاقایات، روایات، پارلیمانی اقدار برقرار رہتے ہیں، عوام جمہوریت میں حقوق نہ ملنے پر آواز اٹھا سکتی، احتجاج کر سکتی ہے، اپنے حقوق کی جدوجہد کرسکتی ہے لیکن آمریت میں یہ تمام چیزیں ہونا ممکن نہیں ہوتا۔
آمریت میں ایک شخص کے پاس تمام اقدار، روایات، آئین و قانون ہوتا ہے وہ ہی ملک کے سیاہ و سفید کا مالک ہوتا ہے۔ اگر ہم تھوڑا ماضی قریب کا جائزہ لیں تو پاکستان میں بدقسمتی سے آزادی سے لے کر اب تک چار مارشل لاء لگ چکے ہیں ان 75 سالوں میں جمہوری دور سے زیادہ مارشل لاء دور کا سکہ چلتا رہا، اور وہ بھی ایسا کہ جس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔
خوش قسمتی سے ہم یہ کہنے کو حق بجانب ہیں گزشتہ کچھ دن پہلے ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں اس بات کی خاص وضاحت کی گئی کہ اب دوبارہ مارشل کبھی نہیں لگے گا، اللہ کرے ایسا ہی ہو لیکن اس بات کا اختتمام کیسے ممکن ہے کہ یہ جو خاموش مارشل لاء دورے جدت کی ایک نئی اصطلاح کو استعمال کرتے ہوئے لگایا جا رہا ہے یہ کب تک رہے گا اس کا اختتمام آخر کب تک۔ ان تمام معاملات سے نکل کر اگر حقیقی جمہوریت کی طرف ہمارے ملک کو سفر کرنا ہے اور حقیقی معنی میں اگر ہماری سیاسی قیادت پاکستان کوترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتی ہے تو ان جمہوریت کے دعویداروں کو اپنی پارٹیوں کے اندر بھی جمہوریت لانی پڑے گی.
آخر ایسا نظام کیوں ہم نوجوانوں پر مسلط ہے کہ اگر کسی کا باپ، دادا، نانا 1990 کے دور میں صدر، وزیراعظم یا اقتدار کی کسی بھی کرسی پر رہا تو اس کے بعد اب اس کرسی پر اس کے خاندان کا ہی حق ہو گا، اگر کسی جماعت کا کوئی لیڈر شہید ہوگا، فوت ہوگا یا نااہل ہوگا تو اس کے بعد صدارت یا پارٹی قیادت اس کا بیٹا، بھائی، بہن، بیٹی یا بیوی ہی کرے گی، جمہوری اقدار کی روایات یہ تو نہیں جو ہمارے ملک میں ہم نوجوانوں کودی جا رہی ہیں.
حکومتی تبدیلی کے بعد اس بات کی بازگشت زیادہ ہورہی ہے کہ موجودہ حکومت الیکشن ریفارمز کروا کر فوراً الیکشن کی طرف بڑھے گی، اس مکمل برسودہ نظام کا خاتمہ یہ ہی ہے کہ الیکشن ریفارمز میں ان چیزوں کو لازم بنایا جائے کہ ہر سیاسی پارٹی اپنے انٹرا پارٹی الیکشن بروقت کروائے، بلکہ ہر پارٹی کے صدر، چیئرمین کے پاس ایک مخصوص مدت کا عہدہ ہو اور دوسری انٹرا پارٹی الیکشن میں وہ دوبارہ اسی عہدے پر منتخب نہ ہوسکے۔
دوسرا اس بات کو ممکن بنایا جائے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی کا صدر خود کسی بھی سطح کا الیکشن نہ لڑ سکتا ہو یا پھر اگر الیکشن لڑوایا جائے تو اس کے اسمبلی ممبر بننے کے بعد کوئی بڑا حکومتی عہدہ سنبھالنے کے بعد اسے اپنی پارٹی صدارت چھوڑ دینی چاہیے تا کہ وہ مکمل طور پر اپنی حکومتی ذمیداری سنبھالے اور بلا کسی تفریق کے اپنی پارٹی کی خدمت کرنے کے بجائے مکمل طور پر عوامی نمائندہ کہلائے اور حقیقی عوامی خدمت کر سکے۔ایسی ریفارمز ہی ہمارے ملک کو آگے بڑھا سکتی ہیں اور مزید قیادتیں ہمارے ملک میں نوجوانوں کی شکل میں سامنے آ سکتی ہیں۔
آخر کب تک اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کی چند خاندان اور چند لوگ ہی قیادت کریں گے۔ حالات حاضرہ شدت سے اس بات کے متقاضی ہیں کہ ایسی ریفارمز لا کر پاکستان کو ایک نئی راہ پر لایا جائے اور ایک نئے دور کا آغاز ہو۔