ثناء ارشد
گلی بازاروں سے اقتدار کے ایوانو ں تک گالم گلوچ، الزام تراشی اور تشدد کی سیاست عا م ہوگئی ہے۔ کوئی بھی محفوظ نہیں رہا۔ اس گلی میں گزرتے چھینٹے سب پر پڑرہے ہیں۔ کوئی دامن بچانا چاہے تب بھی ممکن نہیں رہا۔ لڑائی گھروں تک پہنچ چکی ہے۔
سیاسی اختلافات کو اسلام اور کفر کی جنگ بنادیا گیا ہے۔ یہ سوچے بغیر کہ ایک بار پھر ان کے پسندیدہ سیاسی قائدین نے ایک ہی میز پر بیٹھنا ہوتا ہے۔ اقتدار حاصل کرنے کے لیے مگر ایسی ذاتیات پر اُتر آنا۔۔۔ لگتا ہے ہم 90 کی دہائی میں ایک بار پھر داخل ہوگئے ہیں۔ ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی کوشش میں زبان کا خیال رہا نہ تہذیب کا۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائیوں میں ناشائستہ جملے بھی سامنے آرہے ہوتے ہیں، لیکن پارٹی قیادت ان کو روکنے کے بجائے اس سے لطف اندوز ہو رہی ہوتی ہے۔ حال ہی میں پنجاب اسمبلی مچھلی منڈی بنی نظر آئی۔ پنجاب اسمبلی میں وزارتِ اعلیٰ کے امیدوار چوہدری پرویز الٰہی بھی ہنگامہ آرائی کے نرغے میں رہے۔ چند دن پہلے پیپلز پارٹی کے رہنما کی نجی ہوٹل میں مار پیٹ کرتے ویڈیو وائرل ہوئی۔ گلی محلوں میں لوگ ایک دوسرے کا گریبان پکڑتے نظر آتے ہیں۔ معاشرے میں عدم برداشت بڑھتا جا رہا ہے اور لوگ ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن گئے ہیں۔ پشاور سے آنے والی ویڈیو تو دل دہلادینے والی تھی۔ جب ایک شخص نے اپنی جماعت کے کارکنان سے کہا کہ ہمارے قائد اور پارٹی کے خلاف بولنے والے صحافیوں کو قتل کردیا جائے۔
اکثر سیاسی جماعتیں اس وقت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہیں۔ سیاسی مخالفین کو برا بھلا کہنا اور الٹے ناموں سے پکارنا سیاستدانوں کا وطیرہ بن چکا ہے۔ لیڈر کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے انتہائی نا شائستہ جملے کسے جاتے ہیں۔ اس دوڑ میں کوئی بھی پیچھے نہیں رہا اور اس حمام میں سب ننگے ہوچکے ہیں۔ معاملات یہاں تک پہنچیں گے، کسی کے وہم وگمان میں نہ تھا۔
جلسے جلوس، رائے کا اختلاف جمہوریت کا حسن ہے۔ مختلف ممالک میں پارلیمنٹ کے اندر جھگڑے اور لڑائیاں بھی ہوتی ہیں، لیکن ان لڑائیوں کو گلی کوچوں اور گھروں کے اندر تک کبھی نہیں لے جایا جاتا۔ ہمارے ہاں تو گالم گلوچ اور الزامات اس قدر زیادہ ہوگئے ہیں کہ عزت سادات بچانے کے لیے لب سینا پڑتے ہیں۔ اب تو معاملہ اس سے بھی آگے جاچکا ہے۔ یہ خوف دامن گیر رہتا ہے کہ کون کس وقت "نعرہِ حق" اور "عَلمِ حق" بلند کر کے "باطل" سمجھ کر ٹھکانے لگادے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی صدائیں سرعام لگ رہی ہیں۔
جانے کب کون کسے ماردے کافر کہہ کے
شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے
کہا جاتا ہے کہ 90ء کی دہائی میں یہی کچھ ہوتا تھا۔ غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹے جاتے تھے۔ سیاسی لڑائی کو حق اور ناحق کا معرکہ بنایا جاتا تھا۔ لیکن تب سیاست پڑھے لکھے اور سمجھ دار لوگوں کے لیے ایسی گلی ہوا کرتی تھی جہاں سے گزرنا شرفا کے لیے نامناسب سمجھا جاتا تھا۔ تحریک انصاف نے جب سیاست میں انٹری دی تو پڑھے لکھے نوجوانوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ وہ جنہیں سیاست سے الرجی تھی، وہ میدان میں اُترے۔ اُمید یہی تھی کہ لوگ ایک مثبت سمت کا انتخاب کریں گے، لیکن وہاں سے بھی مایوسی کے سوا کچھ نہ ملا۔ جلسے جلوسوں میں مخالفین کے لیے ایسی زبان استعمال ہوتی رہی، جس سے سیاست میں مزید عدم برداشت بڑھا۔
سوشل میڈیا نے کشیدگی کے اس ماحول کو سِوا کردیا۔ اب ہر جماعت نے اپنی بریگیڈز رکھی ہیں۔ جنہیں اسی کی تربیت دی جاتی ہے کہ کس طرح سیاسی مخالفین کو "گھرتک چھوڑکر" آیا جاسکتا ہے۔ آپ ذرا ان جماعتوں کے کارکنان کی پروفائل اور ٹوئٹر ہینڈلز کا مشاہدہ کریں، نفرت انگیز مواد شیئر کیا جاتا ہے، ہزاروں کی تعداد میں بنائے گئے جعلی اکاؤنٹس سے معاشرتی و اخلاقی اقدار کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اور بدقسمتی سے یہ میڈیا سیلز اور ان کے ذریعے چلائی جانے والی منظم مہمات کو پارٹی قیادت کی منظوری حاصل ہوتی ہے اور اس کے لیے لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ اب تو بات کروڑوں تک پہنچ چکی ہے۔
تھا ارادہ تری فریاد کریں حاکم سےوہ بھی اے شوخ ترا چاہنے والا نکلا
ایوان اور پارلیمنٹ سے باہر ہونے والی اس بد تمیزی کا ذمہ دار کون ہے؟ ہم اپنے سیاست دانوں اور منتخب ارکان سے بس اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ عوام کو اورکچھ نہیں دے سکتے تو کم ازکم عدم برداشت اور گالی گلوچ کی تربیت تو نہ دیں۔ گالی کلچر اور بد زبانی معاشرتی مسئلہ ہے۔ لیکن سیاسی نظریات سے بالاتر ہوکر معاشرے کا جائزہ لینے اور اس میں بہتری کی کوشش بھی انہی کی ذمہ داری ہے۔ نہیں کریں گے تو یہ نہ ہو کہ یہ سیلاب ان لوگوں کو بھی بہاکر لے جائے جو سمجھتے ہیں کہ ہم اونچے ٹیلے پر کھڑے ہیں۔ ہمیں یہ سیلاب کچھ نہ کہے گا۔