سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس پر سماعت چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں لارجربینچ نے کی۔
سماعت کے دوران پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل میں موقف اپنایا کہ آرٹیکل 62 اور63 میں 1973 سے آج تک بہت پیوند لگے ہیں، ہر حکومت اور آمر اس میں ترمیم کرتے رہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ بظاہر آرٹیکل 63 اے کا مقصد پارٹی سے انحراف روکنا تھا، دیکھنا ہے منحرف ہونے کی سزا اتنی سخت ہے کہ رکن کے دل میں ڈرپیدا ہو یا نہیں۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ منحرف رکن کی نااہلی اسمبلی کی بقیہ مدت تک ہوگی، جس پر جسٹس جمال مندوخیل بولے آپ پارٹی سے انحراف کو جرم تسلیم کررہے اگر جرم ہے تو مجرم کا ووٹ کیوں شمارہوتا ہے، وکیل بولے کہ قتل کا ارادہ کرنے پر 302کا کیس نہیں بن سکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے سینٹ الیکشن کیس میں رائے دی، کسی نےاس کی پیروی نہیں کی، سیاسی جماعت پارٹی انحراف پر نیوٹرل کیوں ہیں، پارٹی سے انحراف کرنے والے کو دوسری جگہ عہدہ دیدیا جاتا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ووٹ نیوٹرل ہونے کی وجہ سے آئین میں نااہلی کی سزا نہیں تھی، فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ ہمارا ملک اس وقت انارکی کی جانب بڑھ رہا ہے،کوئی سپریم کورٹ فیصلے کو ماننے کو تیار نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حالات اتنے خراب نہیں ہیں، عمومی بات نہ کریں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کلچربن گیا ہے کہ فیصلہ حق میں آئے تو انصاف خلاف آئےتو انصاف تار تار ہوگیا۔
جس کے بعد سماعت بدھ تک ملتوی کردی گئی۔