چیف جسٹس اَف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سپریم کورٹ 24 گھنٹے کام کرنے والی عدالت ہے، کسی کو اس پر انگلی اٹھانے کی ضرورت نہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس پرسماعت کی جس میں ایڈشنل اٹارنی جنرل عامررحمان نے درخواست کی کہ نئے اٹارنی جنرل کی تعیناتی کا انتظار کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صدارتی ریفرنس میں اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہوگئے تھے، میرے خیال میں ہمیں صدارتی ریفرنس کو چلانا چاہیے۔
جسٹس عمر رطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ 10 سے 15 ہزار لوگ جمع کرکے عدالتی فیصلے پرتنقید کریں تو ہم کیوں فیصلے دیں، ایسے فیصلوں کا احترام چاہتے ہیں، عدالت اپنا آئینی کام سر انجام دیتی ہے، قومی لیڈروں کو عدالتی فیصلوں کا دفاع کرنا چاہیے، آئینی تحفظ پر گالیاں پڑتی ہیں لیکن اپنا کام کرتے رہیں گے، عدالت کیوں آپ کے سیاسی معاملات میں پڑے۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے دلائل دیئے کہ ووٹ پارٹی کی امانت ہوتا ہے، پیسے دیکر ضمیر نہیں بیچا جاسکتا ، پیسے دیکر تو اراکین اسمبلی سے ملک مخالف قانون سازی کرائی جاسکتی ہے، پنجاب میں جو حالات ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔
اس معاملے پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کچھ لوگ چاہتے ہیں انحراف کی اجازت ہو کچھ چاہتے ہیں نہ ہو؟ آج کل آسان طریقہ ہے دس ہزار بندے جمع کرو کہو میں نہیں مانتا، پارلیمان نے تاحیات نااہلی کا واضح نہیں لکھا، پارلیمنٹ نے یہ جان بوجھ کر نہیں لکھا یا غلطی سے نہیں لکھا گیا،، اسمبلی موجود ہے دوبارہ اس کے سامنے معاملہ پیش کردیں، عدالت کے سر پرکیوں ڈالا جارہا ہے، پارلیمنٹ کو خود ترمیم کرنے دیں۔
دوسری جانب چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو چار صورتوں میں آرٹیکل 63 میں تحفظ دیا گیا ہے، ضیاء الحق نے پارٹی سے انحراف پر پابندی کی شق آئین سے نکال دی تھی ، 2010 میں 18 ویں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 63 اے شامل کیا گیا ، آئین کی خلاف ورزی چھوٹی بات نہیں ہے، کئی لوگ آئین کی خلاف ورزی پر آرٹیکل چھ پر چلے جاتے ہیں اور آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی پر آرٹیکل 6 کا کیس نہیں بنتا، عدالت تعین کرے گی کہ آئین سے انحراف کا کیا نتیجہ ہوگا۔
جسٹس جمال خان نے استفسار کیا کہ کیا عدالت اپنی طرف سے تاحیات نااہلی شامل کر سکتی ہے؟َ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح میں عدالت تاحیات نااہلی قرار دے چکی ہے تاہم عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کردی ہے۔