چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ قومی اسمبلی کی تحلیل سے متعلق وزیراعظم اور صدر کی جانب سے شروع کیے گئے تمام احکامات اور اقدامات عدالت کے حکم سے مشروط ہوں گے۔
سپریم کورٹ ترجمان کے مطابق چیف جسٹس نے یہ آبزرویشن قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی برطرفی اور صدر عارف علوی کی جانب سے قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد ملک کی موجودہ صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے دی۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے آج کیس کی سماعت کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب نہیں ہونی چاہیے، تمام سیاسی جماعتوں کو ذمہ داری سے کام کرنے کی ہدایت کرتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی بھی ریاستی ادارہ کوئی غیر آئینی قدم نہ اٹھائے اور کوئی بھی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پبلک آرڈر برقرار رہنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ عدالت رمضان کی وجہ سے سماعت کو نہیں گھسیٹنا چاہتی اور تمام سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کیے جائیں۔
جسٹس بندیال نے سیکرٹری داخلہ اور دفاع کو بھی عدالت کو امن و امان کی صورتحال پر بریفنگ کا حکم دیا۔
چیف جسٹس نے پیپلز پارٹی کی درخواست منظور کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ عدالت ڈپٹی اسپیکر کے اقدامات کا جائزہ لے گی۔
تاہم عدالت نے ڈپٹی سپیکر کے فیصلے کو معطل کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو کل پیش ہونے کی ہدایت کی۔
جسٹس بندیال نے ریمارکس دیے کہ صدر علوی کو کیس میں مدعا علیہ بنایا جائے کیونکہ یہ اہم معاملہ ہے۔
انہوں نے یہ بھی حکم دیا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور تمام سیاسی جماعتوں کو ازخود نوٹس میں مدعا علیہ بنایا جائے۔
عدالت نے اٹارنی جنرل خالد خالد جاوید خان، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، سیکریٹری دفاع، سیکریٹری داخلہ، تمام سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔