پنجاب اسمبلی کے سیکریٹری نے کہا کہ صوبے کے نئے وزیراعلیٰ کے لیے ہفتے کو ووٹنگ ہونے کی توقع تھی، آج صرف انتخابی شیڈول جاری کرے گی۔
پنجاب اسمبلی کے سیکرٹری محمد خان بھٹی نے لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج ووٹنگ نہیں ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ "شیڈول جاری کرنے کے علاوہ مزید کارروائی ہوگی جبکہ یہ ایوان کے اسپیکر کی صوابدید ہے کہ وہ انتخابی شیڈول کا اعلان کرنے کے بعد کل یا پرسوں ووٹنگ کرائیں۔
حکمراں جماعت پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) نے چوہدری پرویز الٰہی کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے جن کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز سے ہوگا۔
تاہم ایوان کے قواعد کے مطابق جیتنے والے امیدوار کو 371 رکنی اسمبلی میں 186 اراکین کی حمایت درکار ہوتی ہے تاکہ وہ اپنا مقام حاصل کر سکے۔
یاد رہے کہ عثمان بزدار کا استعفیٰ منظور کرنے کے فوراً بعد گورنر پنجاب سرور نے صوبائی اسمبلی کا اجلاس آج 11 بجے طلب کر لیا جبکہ عثمان بزدار کا استعفیٰ منظور ہونے کے بعد پنجاب کابینہ بھی تحلیل کر دی گئی ہے۔
عثمان بزدار کے استعفیٰ کی منظوری کے بعد وزیراعلیٰ بزدار کو ڈی نوٹیفکیشن دے دیا لیکن اسی نوٹیفکیشن میں انہیں "اس وقت تک عہدے پر فائز رہنے کی اجازت دی گئی جب تک کہ ان کا جانشین دفتر میں داخل نہیں ہوتا"۔
دنیا نیوز کے شو ’دنیا کامران خان کے ساتھ‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے پرویز الہی نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں وزیراعلیٰ کی نشست کے لیے پنجاب اسمبلی میں اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔
اسی انٹرویو میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ پی ٹی آئی نے ایم کیو ایم پاکستان کی شرائط مان لی ہیں اور وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جائے گی۔
تاہم واقعات کے نتیجے میں ایم کیو ایم پاکستان نے متحدہ اپوزیشن کے ساتھ "مسائل کو حل کرنے" کی بنیاد پر ایک معاہدے پر دستخط کیے۔
اسی طرح پنجاب میں علیم خان گروپ نے پرویز کے حق میں ووٹ نہ دینے کے فیصلے کا اعلان کیا اور پی ٹی آئی کے "نئے پاکستان" کے نعرے کو "پرانے چہرے" کی نامزدگی پر تنقید کا نشانہ بنایا۔
مزید یہ کہ ترین اور چینا گروپس، جو پنجاب کے دو اہم گروپوں میں سے ایک ہیں، انہوں نے ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
متحدہ اپوزیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ مسلم لیگ (ق) کے رہنما پنجاب کے وزیراعلیٰ کے انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کر سکیں گے
اس طرح کی پیش رفت نے آبی وسائل کے وزیر مونس الٰہی کو، جو کہ مسلم لیگ (ق) کے رہنما بھی ہیں، انہوں نے تحریک انصاف کے ناراض گروپوں ترین اور چینا سے حمایت حاصل کرنے پر مجبور کیا۔
واضح رہے کہ آج نیوز کے مطابق مونس نے ترین گروپ کے اراکین سے 4 گھنٹے طویل ملاقات کی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات کا اگلا دور آج دوپہر 12 بجے ہوگا جبکہ مونس الٰہی نے کہا کہ امید ہے کہ پرویز الٰہی اگلے وزیر اعلیٰ ہوں گے۔
اس کے علاوہ مسلم لیگ (ن) نے عثمان بزدار سے نیا عہدہ جمع کرانے کا مطالبہ کیا، جو مستعفی ہونے کے لیے "حقیقی استعفیٰ نامہ" ہوگا۔
مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے آئین کے مطابق استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا ورنہ پارٹی اسے چیلنج کرے گی۔
خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے ایک اور رہنما رانا ثناء اللہ نے سرکاری ہینڈ آؤٹ کے اچانک جاری ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نوٹیفکیشن کی قانونی حیثیت کو جانچنے کا مطالبہ کیا۔