رپورٹ: آصف نوید
اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزیر اسد عمر کی درخواستوں پر الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا،جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ کیا کوئی بھی آئینی اختیار قانون بناُ کر ختم کیا جاسکتا؟ معذرت کے ساتھ، آپ لوگوں نے بھی آرڈیننسز کی فیکٹری لگائی ہوئی ہیں،جو سارے کام پارلے منٹ کے کرنے والے ہیں وہ کام آرڈیننسز سے ہو رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے نوٹسز کخلا ف عمران خان اور اسد عمر کی درخواستوں پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے کی۔
درخواست گزاروں کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر عدالت میں پیش ہوئے ہوئے جبکہ وزیراعظم عمران خان کی پٹیشن پر رجسٹرار آفس کا اعتراض دور کر دیا گیا۔
درخواست گزاروں کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فروری 2022 کو ایکٹ میں ترمیم کی گئی جس کے تحت پارلیمنٹ ممبرز کو الیکشن مہم میں شرکت کی اجازت ملی، الیکشن کمیشن نے ایک میٹنگ کر کے آرڈر جاری کیا، کہ پبلک آفس ہولڈرز انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے سکتے، کمیشن نے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی پر نوٹسز جاری کیا۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کرانے ہیں، انہوں نے آئین کے آرٹیکلز کے حوالہ جات بھی دیئے ہیں، آرٹیکل 218 الیکشن کمیشن کو صاف شفاف انتخابات کرانے کا اختیار دیتا ہے ،آئین نے ایک مینڈیٹ دیا ہے جسے ایکٹ آف پارلیمنٹ سے ختم نہیں کر سکتے، آپ نے یہ نوٹس چیلنج کر دیا ہے، آپ الیکشن کمیشن سے کیوں رجوع نہیں کرتے؟۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ نوٹس امیدوار یا پولیٹیکل پارٹی کو جاری ہو سکتا ہے، افراد کو نہیں۔
عدالت نے کہا کہ آپ کو چودہ مارچ کو الیکشن کمیشن میں پیش تو ہونا چاہئے تھا، آپ نے اپنے طور پر تو اس بات کا تعین نہیں کرنا کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط، آپ کو بھی تو اپنے نیک نیتی پیش کرنی ہے، کم از کم بذریعہ وکیل پیش ہو جاتے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم حکم امتناع جاری نہیں کریں گے، پہلے الیکشن کمیشن کو نوٹس کر کے سنیں گے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزیراعظم اور اسد عمر کی درخواست پر الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتےہوئے جواب طلب کرلیا اور عدالت کی معاونت کیلئے اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کر دیا۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کے نوٹسز معطل کرنے کی متفرق درخواست پر بھی نوٹس جاری کردیا اور سماعت 28مارچ تک ملتوی کر دی۔